نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
میں جانتا تھا کہ زہریلا سانپ بن بن کر
ترا خلوص مری آستیں سے نکلے گا
اسی گلی میں وہ بھوکا فقیر رہتا تھا
تلاش کیجے خزانہ یہیں سے نکلے گا
بزرگ کہتے تھے اک وقت آئے گا جس دن
جہاں پہ ڈوبے گا سورج وہیں سے نکلے گا
گزشتہ سال کے زخمو ہرے بھرے رہنا
جلوس اب کے برس بھی یہیں سے نکلے گا