نشہ ہو ، مان ، بھرم ہو ، حضور ٹوٹتا ہے
شکستِ دل کے سبب جب غرور ٹوٹتا ہے
یہ بے حساب محبت سنبھل کے خرچ کرو
چڑھا ہو جتنا بھی دریا ، وفور ٹوٹتا ہے
ہماری آخری تحریر نامکمل ہے
قلم کا حوصلہ بین السطور ٹوٹتا ہے
تمام عمر گذرتی ہے کارِ وحشت میں
پھر ایک روز اچانک سرور ٹوٹتا ہے
اور ایسی ضرب لگاتی ہے زندگی کہ کوئی
چٹان جیسا بھی ہو تو ، ضرور ٹوٹتا ہے
کومل جوئیہ