محکمہ موسمیات پاکستان نے گذشتہ دنوں خلیج بنگال میں ہوا کے کم دباؤ کی شدت تبدیل ہوجانے پر سمندری طوفان ’گل آب‘ کا الرٹ جاری کیا تھا جسے غلط تلفظ کے ساتھ ’گلاب‘ پڑھا اور لکھا جاتا رہا۔
الرٹ میں بتایا گیا تھا کہ سمندری طوفان ’گل آب‘ بھارت کی ریاستوں اڑیسہ اور آندھرا پردیش کے درمیانی ساحلی علاقوں سے ٹکرانے کے سبب پاکستان پر بھی اپنے خاص اثرات مرتب کرے گا جس کے پیش نظر کراچی میں 28 ستمبر سے 2 اکتوبر تک تیز بارشوں کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
بعد ازاں موسلا دھار بارشوں سے ہونے والے نقصانات پر قابو پانے کے لیے کہیں بلدیہ عظمیٰ ایکٹو نظر آئی تو کہیں شہریوں کو گھروں سے غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کی ہدایات جاری کرتے ہوئے اسکول و جامعات بند رکھنے کا اعلان بھی کردیا گیا۔
حتیٰ کہ موسلا دھار بارشوں کے دوران شہریوں کو بحفاظت گھر پہنچانے کے لیے پیشگی اقدام کے طور پر شہر کے مختلف علاقوں میں کشتیاں بھی کھڑی کردی گئیں۔
سمندری طوفان ’ گل آب ‘ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنا رہا
گذشتہ دو دنوں کے دوران سمندری طوفان ’گل آب‘ جسے ’گلاب‘ کہا، لکھا اور پڑھا جاتا رہا، سوشل میڈیا پر بھی ٹرینڈ بنارہا۔
کہیں صارفین مختلف میمز شیئر کرتے ہوئے طوفان کے منتظر نظر آئے تو کہیں کراچی والے طوفان دیکھنے کے تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سمندر ہی پہنچ گئے۔
اس دوران متعدد صارفین کی جانب سے سمندری طوفان کے نام کے حوالے سے بھی کئی میمز شیئر کیے گئے۔
سندھ میں سمندری طوفان اور موسلا دھار بارش کے امکانات کم ہوگئے
تاہم گذشتہ روز سمندری طوفان اور موسلا دھار بارش کے امکانات کم ہوگئے اور بحیرہ عرب میں موجود ڈیپ ڈپریشن سندھ سے دور ہونے لگا جس کے باعث موسلا دھار بارش کے برعکس شہر بھر میں کہیں ہلکی اور کہیں تیز بارش دیکھنے میں آئی۔
سمندری طوفان کے نام رکھتا کون ہے؟
سمندری طوفان ٹاک ٹائی، ایمفن ، فانی ، تتلی ،بلبل، گاجا اور اب گل آب جیسے نام لیے سمندری طوفان ساحلوں سے ٹکرانے لگیں تو ہر عام آدمی کے ذہن میں پہلا سوال یہی اٹھتا ہے کہ ان طوفانوں کے نام رکھتا کون ہے؟
شاید یہ کم ہی لوگ جانتے ہوں کہ سمندری طوفان ’گل آب‘ کا نام پاکستان اور اس سے قبل ہندوستان کے مشرقی ساحل سے ٹکرانے والے طوفان کا نام ’یاس‘ عمان کا تجویز کردہ تھا۔
سمندری طوفانوں کے ناموں کی تجویز کے حوالے سے جنوبی ایشائی ممالک کا ایک پینل (panel and tropical cyclones PTC)ہے۔
سمندری طوفانوں کے ناموں کی تجویز کے حوالے سے جنوبی ایشائی ممالک کا ایک پینل (panel and tropical cyclones PTC)ہے۔
کن ممالک کی جانب سے طوفان کے نام تجویز کیے جاتے ہیں ؟
ایک مخصوص ساحل کے اردگرد موجود ممالک اس ساحل میں بننے والے طوفانوں کا نام تجویز کرتے ہیں، جس کے پیش نظر سمندری طوفانوں کے ناموں کی تجویز کے حوالے سے جنوبی ایشائی ممالک کا ایک پینل (panel and tropical cyclones PTC)ہے۔
اس پینل میں پہلے 6 سے 7 ممالک موجود تھے تاہم اب پاکستان، بھارت ، سمیت 13 ممالک ہیں جن کی جانب سے دوسری بار 2019 میں 169 سمندری طوفانوں کے ناموں کی فہرست پیش کی گئی تھی اس فہرست کی تیاری کے لیے ہر ملک کی جانب سے 13 نام تجویز کیے گئے تھے۔
فہرست میں موجود ناموں کو ورلڈ میٹیرولوجیکل آرگنائزیشن کی جانب سے منظور کیا گیا ہے جس کے بعد اب اسی فہرست میں سے یکے بعد دیگرے ہر آنے والے طوفان کا نام ممالک کے ناموں کو مد نظر رکھتے ہوئے حروف تہجی کے لحاظ سے منتخب کیا جائے گا۔
سمندری طوفان کے ناموں کی تاریخ
سمندری طوفانوں کو نام دینے کا سلسلہ 19 ویں صدی کے اوائل میں شروع ہوا، اس وقت طوفانوں کو اس مقام (جہاں طوفان آتا تھا) کے نام سے منسوب کردیا جاتا تھا یا پھر مذہبی پیشواؤں یا جس سال طوفان آتا تھا اس سال کا نام دے دیا جاتا تھا۔
20 ویں صدی کے دوران مغربی ماہرین نے عام خواتین کا نام استعمال کرتے ہوئے طوفانوں کو نام دینا شروع کیا۔
2000ء کے دوران عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO) نے شمالی ہندوستان کے ساحل پر آنے والے طوفانوں کے نام کے لیے ارد گرد موجود ممالک کی جانب سے سمندری طوفان کے نام تفویض کیے جانے پر اتفاق کیا۔ لہٰذا اب سمندری طوفانوں کے ناموں کی تجویز کے حوالے سے 13 جنوبی ایشیائی ممالک پر مشتمل ایک پینل (panel and tropical cyclones PTC)ہے جو ڈبلیو ایم او کو سمندی طوفانوں کے نام تجویز کرتا ہے۔
کسی طوفان کا نام کب تک استعمال کیا جاتا ہے؟
ڈبلیو ایم او کی ہدایت کے مطابق سمندری طوفان کے کسی ساحل سے ٹکرانے کے بعد اس کا تجویز کردہ نام بھی ریٹا ئر ہوجاتا ہے جسے بعد میں کسی دوسرے آنےوالے طوفان کے لیے استعمال نہیں کیاجاتا اور نئے طوفان کے لیے فہرست میں سے اگلا نام منتخب کرلیا جاتا ہے۔
نام تجویز کرنے کی کیا شرائط ہوتی ہیں؟
عالمی طور پر رائج قوائد و ضوابط کے تحت کسی بھی ملک کی جانب سے تجویز کیا جانے والا نام غیر جانبدار ہونا چاہیے۔
یہ نام سیاست، کسی سیاسی رہنما، مذہبی عقائد، ثقافت، مذہبی علامات اور جنس پر مشتمل نہیں ہونے چاہئیں اور کوشش کی جانی چاہیے کہ نام میں پانی کے عنصر کو اہمیت دی جائے۔