گلوکوما ،کالا موتیا یا کالا پانی وہ بیماری ہے جس میں پردہ بصارت سے دماغ کو معلومات منتقل کرنے والے اعصاب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں نظر کمزور ہونے لگتی ہے، یہاں تک کہ بینائی بھی ضایع ہوسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق کالاموتیا، جو طبّی اصطلاح میں گلوکوما کہلاتا ہے،ایک ایسا عارضہ ہے،جس میں پردۂ بصارت سے دماغ کو معلومات منتقل کرنے والے اعصاب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، آنکھ کا دماغ کے ساتھ رابطہ منقطع ہو جانے سے ابتداء میں نظر کمزور ہوتی ہے جس کے بعد آدمی مکمل طور پر بینائی سے محروم ہو جاتا ہے۔
دنیا بھر میں 36کروڑ افراد اندھے پن کا شکار ہیں، جبکہ پاکستان میں 6فیصد شہری اس بیماری میں مبتلا ہوکر اپنی بینائی کھو چکے ہیں، بڑھتی عمر وٹامن اے کی کمی بھی کمزور بینائی کا سبب ہے، نابینا پن کی بنیادی وجہ کالا پانی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق موتیا کی بیماری سے دنیا بھرمیں قریباً 50 لاکھ افراد اندھے ہو جاتے ہیں، یہ مرض عُمر کے کسی بھی حصّے میں لاحق ہوسکتا ہے، عمومی طور پر موروثی کالے موتیے کے اثرات پیدائش کے ساتھ ہی ظاہر ہونے لگتے ہیں جبکہ عُمر کے ساتھ لاحق ہونے والا کالا موتیا زیادہ تر بڑھاپے میں ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق آنکھ کے اندرونی حصوں کو خوراک فراہم کرنے کا کام خون میں موجود ایک مادہ سرانجام دیتا ہے، پانی جیسی شکل رکھنے والا یہ مادہ خوراک مہیا کرنے کے بعد پھر خون کا حصہ بن جاتا ہے۔
کالے موتیا کے دوران اس مواد کے خون میں واپس جانے کے راستے میں رکاوٹ پڑ جاتی ہے اور وہ مواد آنکھ میں جمع ہونے لگتا ہے۔ جس سے آنکھ کا اندرونی دباؤ 22 ملی میٹر مرکری سے 50 ,40 اور بعض اوقات 100 تک پہنچ جاتا ہے۔
اس کی عام علامتوں میں آنکھوں اور سر میں درد، نظر کی کم زوری، چکر آنا، آنکھوں کا سرخ ہو جانا اور دھندلا پن شامل ہے۔ اگر یہ علامتیں ظاہر ہوں تو ہمیں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ کیوں کہ کالے موتیا کا علاج فوری طور پر نہ شروع کرنے بینائی سے محرومی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس بیماری کے علاج کے لیے مخصوص دوائیں اور لیزر کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ تاہم خطرناک بات یہ ہے کہ کالے موتیا کی علامتیں بینائی کو نقصان پہنچانے کے بعد ہی ظاہر ہوتی ہیں۔
شوگر، امراض قلب اورہائی بلڈ پریشراور خون کی کمی جیسے عارضوں میں مبتلا افراد کو موتیا کی بیماری لاحق ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان امراض کا شکار افراد کو آنکھوں کے معالج سے معائنہ کرواتے رہنا چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق موتیا کی کئی اقسام میں سے دو بہت عام ہیں، پہلی اوپن اینگل گلوکوما جس میں سست رفتاری سے آنکھوں کی بینائی ختم ہوتی ہے اور دوسرا اینگل کلوزر گلوکوما جس میں بینائی اچانک ختم ہوجاتی ہے۔
کالے موتیا کے علاج میں سب سے پہلے آنکھوں پر دباؤ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق اسے لازمی طور پر 21 ایم ایم ایچ جی سے کم ہونا چاہیے۔ علاج کے دوسرے مرحلے میں ڈاکٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ بینائی میں کمی کو روکا جاسکے۔ اس کے بعد معالج سرجری یا لیزر کے ذریعے علاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس مرض کے علاج کے کم وقت میں ہو جاتا ہے اور اس دوران کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی۔ علاج کی صورت میں بینائی کے مزید متأثر ہونے کا سلسلہ رک جاتا ہے۔
آنکھوں کی عام شکایات سے بچنے کے لیے انہیں ہر دو سے تین گھنٹے بعد سادہ پانی سے دھونا چاہیے۔ جس قدر ممکن ہو گردوغبار سے بچا جائے، ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر اسکرین سے مناسب فاصلہ رکھیں اور لکھنے پڑھنے کے لیے ایسے کمرے یا جگہ کا انتخاب کریں جہاں روشنی کا مناسب انتظام ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر فرد کو سال میں کم از کم دو مرتبہ اپنی آنکھوں کا معائنہ کروانا چاہیے۔