مشتاق احمد یوسفی کے بقول، حس مزاح ہی دراصل انسان کی چھٹی حس ہے۔ یہ ہے تو انسان ہر مقام سے بہ آسانی گزرجاتا ہے۔
چھٹی حس، یہ لفظ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اکثر سنتے ہیں لیکن کبھی سوچا ہے کہ آخر یہ ہے کیا؟ کیا اس کی کوئی حقیقت بھی ہے یا لوگوں کا وہم ہے ؟ سائنس اس کے بارے میں کیا کہتی ہے،آئیے جانتے ہیں۔
ہمارے دماغ کے دو حصے ہیں بایاں حصہ اور دایاں حصہ۔ بائیں حصہ کا تعلق ہمارے ذاتی شعور سے ہے ہمارا ذاتی شعور، زمان و مکاں (ٹائم اور سپیس) کا قیدی ہے اور اسکے پاس محدود معلومات ہیں اس حصہ میں وہ چیزیں اور معلومات جمع ہوتی رہتی ہیں جنہیں ہم حواس خمسہ کے ذریعےسیکھتے ہیں چونکہ ہمارے حواسِ خمسہ کی رینج مادی دنیا تک محدود ہے، لہذا ہماری پانچ حسیں ہمیں غیب کا علم نہیں دے سکتیں۔
دماغ کے دائیں حصہ کا تعلق کائناتی شعور سے ہے ہمارا کائناتی شعور ٹائم اور سپیس کی گرفت سے آزاد ہے اور اس کے پاس لامحدود معلومات ہیں کائناتی شعور میں ماضی، حال اور مستقبل کی ہر انفارمیشن موجود ہے اور غیب کے علم تک بھی اسکی رسائی ہے ہم اپنی چھٹی حس کے ذریعے کائناتی شعور سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ چھٹی حس کی اصطلاح ایسے مواقع پر استعمال کی جاتی ہے کہ جب ہمیں کسی ایسی بات کا علم ہو جائے جو بظاہر وہاں موجود ہی نہیں۔
یہ حس دو صورتحال میں کام کرسکتی ہے، پہلی دورانِ خواب چھٹی حس کا استعمال یعنی جب ہم بیداری کی حالت میں ہوتے ہیں تو دماغ کا بایاں حصہ ذاتی شعور جاگا ہوتا ہے۔ جبکہ سچے خواب کے دوران ہمارے دماغ کا دایاں حصہ کائناتی شعور جاگ پڑتا ہے۔جسکی وجہ سے ہماری چھٹی حس ہمیں غیب کی کوئی اطلاع دے دیتی ہے جسے ہم سچے خواب کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ لیکن سائنس میں اسکی کوئی اہمیت نہیں نہ ہی مانتی ہے ۔
دوسری صورت بیداری کی حالت میں چھٹی حس استعمال میں آسکتی ہے، یعنی آپ کے کسی چاہنے والے کےلئےآپ کا دل بے قرار ہونا کہ وہ مشکل میں ہے ، یا بچہ کسی اور جگہ ہو اور آپ کے دل سے آواز آئے کہ وہ گرنے والا ہے، یا کوئی ایسی صورتحال جس کے بارےی میں آپ نے ایسے ہی کبھی سوچا ہو اور وہ ایک دم سے آپ کے سامنے ممکن ہوجائے تو آپ سوچتے ہیں کہ یہ تو میں نے ابھی سوچا تھا ۔ اکثر آپ کسی کو بہت زیادہ یاد کر رہے ہوتے ہیں اور وہ اچانک سامنے آجاتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی اور انسان کےلئے آپ کے دماغ میں بار بار منفی خیالات آرہے ہوتے ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ واقعی خراب آدمی یا عورت ہے۔
کیا ہم میں سے ہر ایک کے پاس چھٹی حس ہوتی ہے؟یقینا ہم میں سے ہر ایک میں یہ قابلیت اور صلاحیت موجود ہے کہ ہم اپنی باقی حسیات سے ایک اور حس تخلیق کر سکیں لیکن حواسِ خمسہ کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ جب آپ کو کسی چیز یا آنے والے وقت کے بارے میں عجیب محسوس ہوتا ہے تو کچھ لوگ اسے الہام کہتے ہیں ۔تجربات اور مطالعہ کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دیگر جانوروں اور پرندوں میں جو حس، چھٹی حس کے طور پر جانی جاتی ہے وہ ہے زمین کے مقناطیسی میدان کو محسوس کرنا۔
ایک حالیہ تحقیق میں سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انسان میں ایک حس موجود ہے جو کہ انسان کو مقناطیسی میدان کو محسوس کرنے میں مدد دیتی ہے اور اس مقناطیسی میدان میں تبدیلی لا کر پرندوں یا جانوروں کو ان کے راستے سے بھٹکایا بھی جا سکتا ہے۔ سائنسدانوں نے ایک تجربہ میں پھلوں کے باغ کی مکھی میں انسانی آنکھ کے ریٹینا کا پروٹین داخل کیا گیا۔ تحقیقاتی ماہرین کے مطابق مکھی نے اپنی پرواز کے راستے تبدیل کر لیے تھے جبکہ ابھی مکھی کی آنکھ میں بھی کسی قسم کی تبدیلی نہیں لائی گئی تھی۔ اِس تجربہ سے اخذ کیا گیا کہ انسان میں بھی یہ چھٹی حس موجود ہے لیکن ہم اس سے لاعلم رہتے ہیں۔
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ انسان کے دماغ کا یہ مخصوص حصہ کسی پیشگی خطرے پر خود کار طریقے سے 200 ملی سکینڈز کے اندر اندر ردعمل ظاہر کرتا ہے تاہم نروس افراد ان خطروں اور منفی جذبات کے لیے زیادہ حساسیت ظاہر کرتے ہیں۔
تحقیق کاروں نے کہا کہ زیادہ حیرت انگیز دریافت یہ ہے کہ بے چین رہنے والے لوگ پرسکون لوگوں کے مقابلے میں دماغ کے مختلف علاقے میں خطرے کا پتا لگاتے ہیں۔
نتائج سے ظاہر ہوا کہ بے چینی خطرے کے سگنلز کو دماغ کے ایک حصے موٹرکارٹیکس تک تیزی سے پہنچاتی ہے، جو منصوبہ بندی، کنٹرول اور سزا کے لیے ذمہ دار ہے۔ لہذا نروس افراد جب خوف محسوس کرتے ہیں تو، وہ دماغ میں جسمانی کارروائی کے لیے ذمہ دار دماغ کے حصہ کا استعمال کرتے ہوئے خطرے پر عملدرآمد کرتے ہیں۔
دریں اثناء کم فکر مند یا پرسکون لوگوں کا جب سماجی خطرے سے سامنا ہوتا ہےتو، خطرے کے ابتدائی سگنلز ان کے دماغ کے ان علاقوں کو پہنچتے ہیں، جو ‘سینسری سرکٹس’ یعنی دماغی حس کے تصور یا چہروں کی شناخت کے ساتھ منسلک ہیں۔
چھٹی حس پر کچھ لوگ بہت حد تک یقین رکھتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ خام خیالی ہے، اس پر بہت سی تحقیق ہوچکی ہیں جبکہ بہت سی تحقیقات ابھی بھی جاری ہیں۔ لیکن اتنے سالوں میں کبھی بھی چھٹی حس کے حوالے سے کی گئی پر تحقیق کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔
مصنف: سندس رعنا
نوٹ: یہ مضمون تحقیق پر مبنی اور عام معلومات کے لیے ہے۔