1990 کی دہائی میں مریخ کے پتھر ایلن ہلز 84001 نے عالمی سطح پر ہلچل اس وقت مچائی جب سابق امریکی صدر بل کلنٹن سمیت کئی افراد نے یہ دعویٰ کیا کہ اس پتھر سے مریخ پر زندگی کیے آثار ملتے ہیں۔
اس پتھر کے متعلق یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا ہے اور سائنس دانوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ چٹان اور پانی کے لوتھڑے کے سوا کچھ نہیں۔
1984 میں اینٹارکٹیکا سے دریافت ہونے والے چار ارب سال پرانے پتھر نے عالمی سطح پر سرخیوں میں جگہ تب بنائی جب ناسا کے سائنس دانوں نے 1996 میں کہا کہ اس پر بیکٹیریا کی مائکرواسکوپک باقیات موجود ہیں۔
ان کے دعوے نے اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کو فوری طور پر پریس کانفرنس پر اُبھارا۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ سائنس نے ہماری کائنات کے متعلق اب تک کا سب سے زبردست راز افشا کیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس کے اثرات دور رس اور بہت بڑے ہو سکتے ہیں۔
سابق امریکی صدر نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ ہمارے کچھ پرانے سوالات کے جوابات بھی دے گا۔
کلنٹن نے اس دعوے کی بناء پر امریکی خلائی ادارے کی فنڈنگ بڑھانے کا جواز پیش کیا۔
لیکن اس وقت بھی سائنس دان ناسا کے اس دعوے کو شک کی نگاہوں سے دیکھتے تھے اور اس دریافت پر سوال اٹھاتے تھے۔
اور اب تقریباً دو کلو کے اس چٹان کے ٹکڑے کے تفصیلی مطالعے کے بعد تمام دعوے دھرے رہ گئے ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم کارنی انسٹیٹیوشن فار سائنس کے ماہرین نے اس شہابی پتھر کا مطالعہ کیا۔
اس مطالعے میں معلوم ہوا کہ پتھر پر موجود کاربن سے بھرپور مرکبات بیکٹیریا کی باقیات نہیں بلکہ اس پر ایک لمبے عرصے تک بہنے والے نمکین پانی کی وجہ سے ہیں۔