کہتے ہیں نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے اور اس کی مثال ہمیں اپنے اردگرد موجود لوگوں سے شاید مل بھی سکتی ہے۔لیکن آج کل جو معاشرہ پروان چڑھ رہا ہے اس میں ایسے لوگوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے جو لاکھ جتن کے باوجود بھی بھر پور نیند نہیں لے پاتے یا انھیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ نیند کی اہمیت ہے کیا۔ کبھی ہم زیادہ سوتے ہیں کبھی کم، کبھی کسی انداز میں سوتے ہیں تو کبھی کسی، یہ جانے بغیر کہ بظاہر ننھا سا نظر آنے والا یہ لفظ ہماری زندگیوں پر کس قدر اثر اندا ہوسکتا ہے۔کیا کبھی ہم نے سوچا کہ نیند ہمارے جینے کے لئے اس قدر ضروری کیوں ہے اور سونے کا صحیح طریقہ کار ہے کیا؟
اگر نیند کی لفظی معنوں میں تعریف بیان کی جائے تو معلوم ہوگا کہ”نیند چوبیس گھنٹے کے دوران وہ باقاعدہ وقفہ ہوتاہے جس میں ہم اپنے ماحول سے بے خبر ہوتے ہیں اور اس کا احساس نہیں رکھتے“۔
اگر سائنس و تحقیق کے تناظر میں دیکھیں تونیند کے حوالے سے بہت سی انوکھی اور دلچسپ باتیں معلوم ہونگی۔ ایک تحقیق کے مطابق سات گھنٹے یا اس سے زیادہ کی نیند دل کی صحت اور صحت مند زندگی گزارنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ہم اکثر آدھی رات کو نیند کھل جانے پر فکر مند ہوجاتے ہیں لیکن یہ ہمارے لیے اچھا بھی ہو سکتا ہے۔ سائنس اور تاریخ دونوں سے حاصل ہونے والے شواہد سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ آٹھ گھنٹے کی مسلسل نیند شاید غیر فطری ہے۔
وسیع پیمانے پر کیے گئے ایک مطالعہ کے مطابق، ورزش، خوراک اور تمباکو نوشی کے متعلق روایتی مشوروں کے نتیجے میں دل کے امراض یا فالج سے اموات میں کمی ہوئی ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ زندگیاں اچھی نیند لینے سے بچی ہیں۔ایک تحقیق دان کے مطابق تیس فیصد سے زائد بیماریوں کا تعلق کسی نہ کسی طرح نیند سے ہوتا ہے لیکن نیند کو طبی تربیت میں نظر انداز کیا گیا ہے۔ بہت کم ایسے ادارے ہیں جہاں نیند کے بارے میں تعلیم دی جا رہی ہے۔
بھرپور نیند کی کمی کئی پیچیدگیوں کی وجہ بن سکتی ہے جن میں یاداشت سے منسلک بیماریاں جیسے الزائمرز (دماغی مرض)وغیرہ شامل ہیں۔نیند کی کمی سے انسان نہ صرف دن بھر سست رہتا ہے بلکہ اپنی ذمہ داریاں بہتر طورپر انجام نہیں دے پاتا، اس کے علاوہ کم خوابی سڑکوں پر ہونے والے کئی مہلک حادثوں کی وجہ بھی بنتی ہے۔ اسی طرح کئی بار مشینوں پر کام کرنے والے بے خوابی کے مریض سنگین حادثات کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔
اچھی نیند نہ آنے کی بہت ساری روزمرہ کی وجوہات ہیں جیسا کہ خوابگاہ یا گھر پْرشور و غل ، گھرکا بہت گرم یا سرد ہونا،بسترکا آرامدہ نہ ہونا یا بہت چھوٹا ہونا،شریکِ حیات کے سونے کا انداز مختلف ہونا، باقاعدہ روٹین کا ڈسٹرب ہونا یا جسمانی کام سرانجام نہ دینا،ضرورت سے زیادہ کھانے سے بھی نیند میں دِ قت ہو سکتی ہے اور اگر بغیر کھائے پیئے سو جائیں تو بھی جلدی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سگریٹ، الکوحل اور کیفین والے مشروبات جیسے کہ چائے یا کافی کا استعمال اور بیماری، درد یا تیز درجہ حرارت وغیرہ بھی ان وجوہات میں شامل ہیں۔
اسی طرح اس میں کچھ بعض زیادہ سنجیدہ وجوہات بھی شامل ہیں جیسا کہ جذباتی مسائل،کام کاج کے مسائل،فکرمندی پریشانی،اْداسی اور روزمرہ کے معاملات اور مسائل پر مسلسل سوچناوغیرہ۔
لوگ سالہا سال تک خواب آور دوائیں استعمال کرتے ہیں لیکن کیا یہ دوائیاں بھر پور نیند کے لئے کار آمد ہوتی ہیں؟؟ نہیں بالکل نہیں!! نیند آور ادویات بہت عرصے تک کام نہیں کرتیں بلکہ اِن سے اگلے دن تھکاوٹ اور چڑچڑاپن محسوس ہونے لگتا ہے۔ ان کا اثر جلد ہی زائل ہو جاتا ہے، لہٰذا اْسی تا ثیرکو حاصل کرنے کے لیے خوراک کی مقدار بڑھانی پڑتی ہے۔ بعض لوگ ان کے عادی ہو جاتے ہیں، جتنا زیادہ ان خواب آور گولیوں کا استعمال کیا جاتا ہے اْتنا ہی زیادہ جسمانی اور نفسیاتی طور پر اْنکے عادی ہو جانے کاامکان بڑھ جاتا ہے۔
مارکیٹ میں بہت سی نئی خواب آور دوائیں دستیاب ہیں لیکن اْنکے نقصانات بھی ویسے ہی ہیں جیسے کہ دیگر دواؤں کے ہوتے ہیں۔ خواب آور گولیوں کےاستعمال سے گریز کرنا چائیے اور اگر بہت ضروری ہو تو صرف مختصر عرصے کے لیے استعمال کرنی چاہیے۔ مثلاً اگر اس قدر بے چینی محسوس ہورہی ہوکہ بالکل نہیں سو یا جارہا ہو۔ بعض صورتوں میں اْداسی کم کرنے والی گولیاں نیند کے مسئلے کے لئے مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔
ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ہفتہ بھر کم سونے سے پیدا ہونے والی کمی کو ہفتہ کے اختتام پر ایک لمبی نیند سے پورا نہیں کیا جا سکتا۔ماہرین کہتے ہیں کہ نیند کا علاج نیندآور گولیاں اور دوائیں نہیں بلکہ زندگی گزارنے کے انداز میں تبدیلی لانا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے پرسکون اور اچھی نیند کے لیے ان طریقوں سے مدد مل سکتی ہے۔
٭ سونے سے پہلے دن بھر کی پریشانیوں اور مسائل کو بھول جانا اور ان کے بارے میں ہرگز ہرگز نہ سوچنا۔
٭ تھکاوٹ کی حالت میں سونا
٭ آرام دہ اور ہلکا پھلکا لباس پہننا صحیح سرہانے کا انتخاب کرنا۔
٭کمرے میں اندھیرہ کرنا اورمناسب درجہ حرارت کاہونایعنی کمرہ نہ ضرورت سے زیادہ ٹھنڈا ہو اور نہ زیادہ گرم۔
٭بستر پر لیٹنے سے پہلے کوئی مطالعہ شروع کرنا۔
٭رات کی پرسکون نیند کے لیے دن کے وقت قیلولہ نہ کرنا۔
٭سوتے وقت سگریٹ یا تمباکو کی مصنوعات سے دور رہنا
٭بھوکے پیٹ یا بہت زیادہ کھانے کے فوراً بعد سونے کی کوشش نہ کرنا۔
٭باقاعدگی سے وزرش کی عادت اپنانا اور رات کو سونے سے کم ازکم تین گھنٹے پہلے تک کوئی سخت ورزش نہ کرنا۔
نیند کی کمی صحت، اقتصادیات اور ہماری خوشیوں پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے اور پاکستان میں اس کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ،اس لئے یہاں زیادہ تر لوگ پریشان،چڑ چڑے اور زندگی سے اکتائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ باس ملازم سے تنگ ہے تو شوہرکو بیوی کی ہر بات بری لگتی ہے، دوستوں میں لڑائی ہورہی ہے اور طالب علم استاد اور پڑھائی سے پریشان ہے۔۔۔یہ تمام مسائل نیند کی کمی کی وجہ سے بھی پیدا ہوسکتے ہیں ۔
ہمیں کس قدر نیند کی ضرورت ہوتی ہے؟ اس کا انحصارہماری عمر پرہے۔بہت چھوٹے بچے دن میں تقریباً سترہ گھنٹے سوتے ہیں، ذرا بڑی عمر کے بچے دن میں تقریباً نو یا دس گھنٹے سوتے ہیں۔زیادہ تر بالغ افراد رات کے سات یا آٹھ گھنٹے سوتے ہیں۔زیادہ بڑی عمر کے لوگوں کو نیند کی اتنی ہی مقدار درکارہوتی ہے۔ لیکن عام طور پر دوران ِشب گہری نیند کا ایک ہی وقفہ دیکھنے میں آتا ہے جو کہ عام طور پر پہلے تین یا چار گھنٹے میں ہوتا ہے۔ اْس کے بعد اْنھیں نیند سے بیدار کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے اور عمرکے بڑھنے کے ساتھ ساتھ خواب بھی کم آتے ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر افرادکو رات کو سات یا آٹھ گھنٹے سونے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بعض افراد تین گھنٹے سو کر بھی گزارا کر لیتے ہیں۔ ہر رات سات یا آٹھ گھنٹے سے زیادہ باقاعدگی سے سونا فائدہ مند نہیں۔ بیداری کے مختصر وقفے کافی طویل محسوس ہوتے ہیں لہٰذا یہ مغالطہ ہو سکتا ہے کہ ہم کم سو رہے ہیں حالانکہ حقیقتاً ایسا نہیں۔
اسی طرح مرد اور عورت میں بھی نیند کے تناسب میں فرق ہوتا ہے،ڈچ تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ خواتین کو مردوں کی نسبت نیند کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک ہی طرح کی نیند مردوں کے لیے تسلی بخش ہو اور عورتوں کے لیے نہ ہو۔نیند کے میعاد کے بارے میں فرق اس بات کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ خواتین عموماً ہر معاملے میں زیادہ شکایت کرتی ہیں جبکہ مردوں کا اپنی نیند کے وقت کے بارے میں اندازہ غیر حقیقت پسندانہ طور پر زیادہ ہوتا ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ 45 فی صد اس عارضے کی لپیٹ میں آ چکے ہیں، جس کی گواہی یوں بھی ملتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر نیند کی ادویات کی قانونی اور غیر قانونی فروخت کا حجم کھربوں ڈالر میں پہنچ چکا ہے۔گھوڑے بیچ کر سونے کے حوالے سے سیانے لوگوں کا فرمان ہے”جو مزہ رات کی نیند کا ہے وہ دن میں کہاں؟
نیند نہ آنے کی شکایت کو رات میں تارے گننے سے تشبہیہ دی جاتی ہے جو عام طور پرمحبوب کی یاد میں گننے جاتے ہے۔ لیکن طبی ماہرین رات میں تارے گننے کی سائنسی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دور حاضر میں اس مرض کے عام ہونیکی سب سے بڑی وجہ الیکٹریکل لائٹس (مصنوعی روشنی) خصوصاً اسکرین لائٹس کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔
حالیہ دنوں میں ہونے والی ایک جدید طبی تحقیق کے مطابق”برقی بلب اور الیکٹریکل مصنوعات مثلاً ٹیلی ویژن،کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اوراسمارٹ فونزکی اسکرین سے خارج ہونے والی مصنوعی روشنیاں ہی دراصل ہماری نیند کی خرابی کی اصل وجہ ہیں“۔ جب کہ اس سے قبل نیند نہ آنے کی جو متعدد وجوہات بیان کی گئی تھیں ان میں روشنی اور اندھیرے کا ذکر نہیں تھامگر آج طبی ماہرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ دور حاضر میں اس مرض کے عام ہونے کی سب سے بڑی وجہ الیکٹریکل لائٹس (مصنوعی روشنی) خصوصاً اسکرین لائٹس کا بڑھتا ہوا استعمال ہی ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیند پوری نہ لینے کی وجہ سے انسان کھانے کی طرف مائل ہوتا ہے اور نتیجتاً اس کے وزن میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس نئی تحقیق کے مطابق انسانی ذہن کے لیے 24 گھنٹوں میں کم از کم 8 گھنٹے کی نیند ضروری ہے ورنہ دماغ اپنا کام درست طور پر انجام نہیں دے سکتا اور نیند کی کمی باقی نقصانات کے ساتھ ساتھ کسی شخص کو موٹاپے کے عارضے میں بھی مبتلاکرسکتی ہے اور موٹاپا بہت سی دیگر بیماریوں کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔
گہری اور پرسکون نیند انسانی صحت کے لئے بے حد ضروری ہے کیونکہ نیند کی کمی انسان کی ذہنی و اعصابی صحت اور خوبصورتی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔جس کے آثار چہرے سے نمایاں ہونا شروع ہوجاتے ہیں، انسان چڑچڑا، مایوس اور پریشان نظر آنے لگتا ہے اور سماجی سرگرمیوں سے اس کا دل دور ہونے لگتا ہے جو کسی نہ کسی طرح معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نیند کی اہمیت گردانتے ہوئے اسے صحیح طریقے سے اپنی زندگی کا اہم حصہ بنائیں تاکہ ایک خوشگوار ماحول کے ساتھ بہترین معاشرے کو پروان چڑھایا جاسکے۔
سندس رانا، کراچی