لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن کلاسوں کے بچوں پر منفی اثرات

علی ایک ہونہار طالب علم ہےاورتیسری کلاس میں پڑھتا ہے۔چند دن پہلے،ایک ایسے وقت پر بجلی چلی گئی جب وہ آن لائن امتحان دے رہا تھا کیونکہ اسکول میں ہونے والی کلاسوں پر آج کل پابندی ہے۔اتفاق سے اُس کے والدین ہمیشہ بیک اپ رکھتے ہیں لیکن اُس وقت وہ موبائل کے ذریعےبھی انٹرنیٹ سے رابطہ نہیں کر سکے۔ علی کی حس مزاح اُس وقت اپنی انتہا پر تھی تاہم عین اُسی لمحے، اُس کی والدہ کے ذہن میں پڑوسیوں کا خیال آیا۔ وہ اُن کے گھر چلے گئے اور علی نے باقی سوالات وہاں انٹرنیٹ پر رابطہ قائم ہونے کے بعد حل کیے۔لیکن اُس کے استاد نے پھر بھی اُس کے نمبر کم کر دئیے کیوں کہ کیمرا ایک طویل وقفے کےلیے بند رہا تھا۔ یہ کہانی ہر گھر کی ہے۔

ا س سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا بچہ کتنا ذہین اور ہونہار ہے اور وہ اچھے نمبر حاصل کرنے کے قابل ہے۔ اب بچے ، اور اُن کے والدین بھی،آن لائن کلاسوں سے تنگ آچکے ہیں۔ بہت سے بچوں کو اِسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔

اگر آن لائن ہونے والے امتحانات کا جائزہ لیں تو یہ شفاف انداز میں منعقد نہیں ہو رہے ہیں اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑرہاہے کہ اسکول والے کس قدر محنت کر رہے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ امتحانات کے دنوں میں والدین مسلسل اپنے بچوں کی مدد کرتے ہیں اس کے باوجود امتحانات کا مقصد فوت ہو چکا ہے۔ طلباء و طالبات کی اکثریت اپنے امتحانات گوگل یا پھر نصابی کتب کی مدد سے دیتے ہیں ۔

اس کے علاوہ، آبادی کا بہت بڑا حصہ پسماندہ علاقوں میں رہتا ہے جہاں سگنل کے مسائل ، مشترکہ خاندانی نظام کے مسائل ، ری چارج کرنےکے مسائل بھی ہوتے ہیں یا پھر سیکھنے کے متبادل طریقوں تک رسائی کا مسئلہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے طلباء و طالبات کی تدریس کا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے۔

بچوں پر اسکول کے ماحول کا اثر
اسکول کا ماحول بالکل مختلف چیز ہوتا ہے جو بچے میں خودکو نظم و ضبط کا پابند بنانے کا احساس اور تحریک پیدا کرتا ہے ۔اسکول جانے سے بچوں میں ہوشیاری کی ایک خاص قسم پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوستی کے باعث ملنسار بنتے ہیں۔ دوسری جانب، بہت سے بچے اپنےبیڈ روم میں کلاس میں شرکت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یقیناً بغیر یونیفارم کے بھی ہوتے ہیں۔

نوجوان بچوں میں بے مقصدیت
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت سے پرائمری سے پہلے(Pre-Primary) کے بچے (2.5 سے 5سال تک) ، جو ٹھیک سے بول بھی نہیں سکتے ہیں، اُنھیں کمپیوٹر کے سامنے روبوٹ کی مانند بٹھا دیا جاتا ہے۔وہ استاد یا استانی پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ مزید برآں، ای-لرننگ طلباء و طالبات کی جانب سے فیڈ بیک کو بھی محدود کرتی ہےکیوں کہ بہت طلباء وطالبات فوراً جواب نہیں دے پاتے ہیں۔ اُن کی واضح انداز میں سوچنےکی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔ اِس عمر کے بچے زیادہ تر بامقصد سرگرمیوں کے ذریعے سیکھتےہیں لیکن ڈیجیٹلائزیشن نے بچوں کی جسمانی سرگرمیوں کوخطرےمیں ڈال دیا ہے۔

بچوں کا مستقبل خطرے میں ہے
کورونا وائرس کی وجہ سے تعلیم کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے ۔ گزشتہ ڈیڑھ برس سے کلاسیں منعقد نہیں ہو رہی ہیں اور بچوں کو امتحان لیے بغیر اگلے درجوں میں ترقی دی جارہی ہے جو اچھی بات نہیں ہے ۔ اس سے اُن کا مستقبل براہ راست متاثرہورہا ہے۔کیا ہم اپنے تعلیمی نظام سے یہی چاہتے ہیں؟اچھے ڈاکٹر اور انجینئر یا کسی بھی پیشے میں اچھے افراد کس طرح آئیں گے؟ ایسی صورت میں تعلیم کا کوئی فائدہ بھی ہے؟

اساتذہ کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں
اس وبا نے اساتذہ کا کرداربھی تبدیل کر دیا ہے۔اُن کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں کیوں کہ اُنھیں کلاس میں پڑھانے سے پہلے سلائیڈز کی صورت میں آن لائن لیکچر تیار کرنا پڑتاہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اساتذہ کی تربیت کے لیے بھی پالیساں متعارف کرائے تاکہ مؤثر انداز میں بچوں کو پڑھا سکیں۔مزید برآں، اسکول ہفتے میں پورے پانچ دنوں کے لیے نہیں کھولے جارہے ہیں لہذا اُنھیں اپنی دوہری ذمہ د اریاں پورا کرنے کرنے کے لیےدو مرتبہ لیکچردینا پڑتا ہے جو نہایت مشکل کام ہے۔ استاد اور طالب علم کے درمیان مضبوط رشتہ ذاتی طور پر ملے بغیر ممکن نہیں۔

مختصر بات
مختصر بات یہ کہ ای-لرننگ کے بہت سے منفی اثرات ہیں۔پاکستان میں کووڈ19-کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے اسکول بار باربند کیے جارہے ہیں۔اگر ہم چھوٹے بچوں کی بات کریں تو اُن میں ساباش کے بغیرتحریک پیدا نہیں کی جاسکتی کیوں کہ روایتی کلاس روم میں اساتذہ فوری طور پر بچوں کو فیڈ بیک دیتے ہیں جس سے اُن میں بہتر تحریک پیدا ہوتی ہے جبکہ آن لائن اسکولنگ میں یہ چیز ناممکن ہے۔ چنانچہ اِس بات کا امکان کم ہے کہ وہ اپنی کلاسوں میں عمدہ کارکردگی کامظاہرہ کر سکیں۔ ہم جماعتوں اور طلباء کے درمیان رابطے کی کمی کا نتیجہ پریشانی، تنہائی کے احساس اور متعدد ذہنی صحت کی مسائل کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔

یونیسیف کے مطابق، عالمی سطح پر 463 ملین بچے کلاسوں میں شرکت کرنے کے قابل نہیں تھے۔خیبر پختونخوا میں5ملین سے زیادہ اسکول جانے والے بچے متاثرہوئےہیں جن میں سے طلبا کی انتہائی معمولی تعداد آن لائن تعلیم کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ امید کرتے ہیں کہ بچے غیرمعمولی طور پر ہوشیار رہیں گے تاکہ وہ مقررکردہ SOPs پر عمل کریں، محفوظ رہیں اور تعلیم کاسلسلہ جاری رکھیں گے۔ مجھے امید ہے کہ اسکول بھی جلد ہی کھل جائیں گے اور بچے ایک مرتبہ پھر اسکول جا سکیں گے ا ور ہماری زندگی معمول پر آ جائے گی۔ اللہ تعالی ہم سب کواس آفت سے محفوظ رکھے اور ہر چیز دوبارہ معمول کے مطابق ہو جائے۔آمین۔

تحریر:
طوبیٰ کامران

اپنا تبصرہ بھیجیں