جرمنی نے اعلان کیا ہے کہ اگر طالبان اقتدار میں آئے، شریعت نافذ کی اور اپنی خلافت قائم کی تو افغانستان کی مالی امداد بند کردی جائے گی۔
جرمن نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ طالبان جانتے ہیں کہ افغانستان بین الاقوامی امداد کے بغیر نہیں چل سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان افغانستان میں مکمل کنٹرول سنبھال لیتے ہیں، شریعت نافذ کرتے ہیں اور خلافت قائم کرتے ہیں تو ہم وہاں مزید امداد نہیں بھیجیں گے۔
وا ضح رہے کہ جرمنی افغانستان کو سالانہ 43 کروڑ یورو (82 ارب پاکستانی روپے سے زیادہ) کی امداد دیتاہے۔
وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے مزید کہا کہ جرمنی کی حکومت نے افغانستان میں طویل مشن کے خیال پر غور کیا تھا لیکن وہ نیٹو سے باہر کام نہیں کر سکتی تھی۔
افغانستان میں بڑھتے ہوئے خطرے کو واضح کرتے ہو ئے وزارت خارجہ نے جرمن شہریوں کے لیے اپنی ہدایات تبدیل کی اور ان سے کہا کہ وہ فوری طور پر ملک چھوڑ دیں۔
جرمن وزیر دفاع اینگریٹ کرامپ کارن باؤر نے مقامی ریڈیو اسٹیشن سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ افغان باشندے جو جرمن فورسز کے ساتھ مقامی طور پر کام کر چکے ہیں انہیں جرمنی لایا جائے گا تاکہ انہیں طالبان کی جوابی کارروائی سے بچایا جا سکے۔
جرمن وزیر کا مزید کہنا تھا کہ ان افغان باشندوں کو وہاں سے نکالنے کا واضح عزم ہے لیکن ان کو وہاں سے نکالنا کافی مشکل ہے کیونکہ مقامی حکام افغان شہریوں کو صرف اس صورت میں ملک چھوڑنے کی اجازت دیں گے جب ان کے پاس پاسپورٹ ہو گا جو کہ بہت سے افغان باشندوں کے پاس نہیں ہے اور ان سفری دستاویزات کے بغیر لوگ ائیر پورٹ یا جہاز میں نہیں بیٹھ سکتے۔
وا ضح رہے کہ غیر ملکی افواج نے مئی میں افغانستان سے انخلا شروع کیا ہے جس کے بعد سے طالبان نے ملک کے بڑے حصے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
حال ہی میں طالبان نے دارالحکومت کابل سے 150 کلومیٹر (90 میل) کے فاصلے پر صوبائی دارالحکومت غزنی پر قبضہ کیا ہے۔
فرانس، جرمنی اور ہالینڈ کا افغان مہاجرین کی بے دخلی روکنے کا فیصلہ
ادھر فرانس نے بھی جرمنی اور ہالینڈ کے بعد افغان مہاجرین کی جبری وطن واپسی روک دی ہے۔
فرانس نے گزشتہ ماہ افغانستان میں بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورت حال کی وجہ سے ان افغان تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ معطل کر دیا تھا جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
فرانسیسی وزارت داخلہ نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی )کو بتایا کہ ہم اپنے یورپی شراکت داروں کے ساتھ مل کر صورتحال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ 2020 میں افغان باشندوں نے فرانس میں پناہ کی سب سے زیادہ درخواستیں دی تھیں جن کی تعداد 8886 تھیں۔
اس سے قبل جرمنی اور ہالینڈ نے بدھ کو افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی روک دی ہے۔
اس کے علاوہ افغانستان نے جولائی میں یورپی یونین پر زور دیا تھا کہ وہ افغان مہاجرین کی جبری ملک بدری کو تین ماہ کے لیے بند کردے کیونکہ افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا سے قبل سکیورٹی فورسز طالبان کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں۔