عالمی مارکیٹ میں “سیمی کنڈکٹر چِپ” کی قلت کے باعث پاکستانی آٹو مینوفیکچررز نے متعدد نئی گاڑیوں کی بکنگ روک دی ہے۔
خدشہ ہے کہ یہ بندش گاڑیوں کی قیمت بڑھنے کا باعث بھی بنے گی، ایسے میں پاکستانی آٹو انڈسٹری زوال کی داستان پیش کر رہی ہے۔
آٹو ڈیلرز اور مارکیٹ ذرائع سے حاصل ہونے والی مصدقہ اطلاعات کے مطابق سوزوکی کی جانب سے آلٹو کے آٹومیٹک ویرینٹ اور کلٹس اے جی ایس جبکہ “کِیا موٹرز” کی جانب سے پکانٹو آٹومیٹک اور سپورٹیج ایف ڈبلیو ڈی کے نئے یونٹس کی بکنگ روک دی گئی ہے۔
پاکستانی آٹو مارکیٹ میں حال ہی میں متعارف ہونے والی کمپنی “پروٹان” نے اپنی ایس یو وی ایکس 70 کی بکنگ سال بھر کے لیے روک دی ہے۔
سیمی کنڈکٹر چِپ کی عدم دستیابی کے باعث الیکٹرانک کنٹرول یونٹ (ای سی یو) کی بھی مارکیٹ میں کمی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کا اثر ٹویوٹا اور ہنڈا کی گاڑیوں پر بھی ہوگا۔
موجودہ دور میں بننے والی تمام گاڑیوں میں الیکٹرانک سسٹمز نصب ہیں۔ گاڑی کے فیول انجیکشن سسٹم سے لے کر تمام سنسرز، حتیٰ کہ آٹو ایڈجسٹمنٹ والی سیٹیں تک مائیکرو پروسیسرز کے ذریعے کام کرتی ہیں۔
گاڑی کے پرزوں کا تمام تر کنٹرول الیکٹرانک پراسیسرز کے ذریعے ہوتا ہے جس میں سیمی کنڈکٹرز استعمال ہوتے ہیں جن کی فی الحال پوری دنیا میں قلت ہے۔
ڈالر کی قدر میں اضافے کا اثر بھی گاڑیوں کی قیمت پر ہو گا، قوی امکان یہی ہے کہ جن چھوٹی گاڑیوں کی بکنگ بند ہوئی ہے، دوبارہ (بکنگ) کھلنے پر ان کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگا۔
نئی گاڑیوں کے آنے سے آٹو موبیل مارکیٹ کے پروان چڑھنے کی توقع تھی لیکن اس وقت صورتحال اس کے برعکس ہے، سیمی کنڈکٹرز کی عدم دستیابی پاکستانی آٹو مارکیٹ کی متوقع اڑان کے آڑے آگئی ہے۔
دنیا بھر کے لیے سیمی کنڈکٹرز زیادہ تر مشرقی ایشیائی ممالک جیسے کہ کوریا، جاپان اور چین میں بنتے ہیں اور یہاں سے انہیں ان ممالک میں برآمد کیا جاتا ہے جہاں گاڑیاں بنانے کے پلانٹس ہیں۔
کورونا کے دوران وسطی ایشیائی ممالک میں مکمل لاک ڈاؤن کے باعث تمام فیکٹریاں بند ہوگئی تھیں جس کی وجہ سے سیمی کنڈکٹرز کی تیاری بھی تعطل کا شکار رہی۔ جب کاروباری سرگرمیاں بحال بھی ہوئیں تو آٹوموبیل انڈسٹری دنیا بھر میں سست روی کا شکار تھی۔
صرف گاڑیاں ہی نہیں بہت سے نئے گیجیٹس کی سپلائی بھی سیمی کنڈکٹرز کی عدم دستیابی کے باعث تعطل کا شکار ہے۔ آئی فون بنانے والی کمپنی ایپل نے حال ہی میں نئی گھڑی متعارف کروائی لیکن وہ بھی کئی ریجنز میں دستیاب نہیں ہو سکی کیونکہ سپلائی پوری نہیں ہو پا رہی۔
مقامی آٹو مارکیٹ کی بات کریں تو پہلے ہی گاڑیوں کی ڈیلیوری کئی کئی مہینے تاخیر کا شکار رہتی ہے۔ ہزار سی سی گاڑیاں پوری پیمنٹ کے باوجود چار سے پانچ مہینے کے وقفے سے خریداروں کو مہیا کی جا رہی ہے اور ایسا ہی حال نئی متعارف کی جانے والی امپورٹڈ گاڑیوں کا ہے۔
مال کی درآمد کے لیے کنٹینرز کا کرایہ بھی بہت بڑھ گیا ہے اور اگر پہلے 15 دن میں کنٹینر دستیاب ہو جاتا تھا تو اب 2 ماہ میں بھی مشکل سے مل رہا ہے، جس کی وجہ سے درآمدات تاخیر کا شکار ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ مالی سال میں متعدد نئی گاڑیاں اور ماڈل متعارف کروائے گئے تھے جنہیں عوام میں خاصی پذیرائی ملی تھی۔
پاکستانی مارکیٹ میں مہیا ہونے والی گاڑیاں مارکیٹ کی آدھی ضرورت بھی مشکل سے پوری کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں گاڑیوں کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ لوگ کمپنی کی متعین کردہ قیمت سے بھی کئی لاکھ روپے زیادہ دے کر گاڑیاں حاصل کرتے ہیں۔