آزادجموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے 45حلقوں میں پارلیمانی انتخابات کیلئے پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔ ان 45حلقوں میں سے آزاد کشمیر کے لیے 33حلقے جبکہ پاکستان میں مقیم مہا جرین کے لیے 12حلقے مختص کیے گئے ہیں۔انتخابی عمل کے دوران سیاسی ماحول میں خاصی گرما گرمی دیکھی گئی۔تمام سیاسی پارٹیاں اپنی کامیابی کے دعوے کرنے میں مصروف دکھائی دیں۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پی پی پی، پی ایم ایل (این) اور پی ٹی آئی کے درمیان رسہ کشی دیکھنے میں آرہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کادعویٰ ہے کہ اس کی پچھلی حکومت کے پانچ سال حالیہ پانچ سالوں کے مقابلے میں زیادہ اچھے تھے چنانچہ وہ دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔مسلم لیگ(ن) کشمیر میں اپنے کام کی وجہ سے یہ دعویٰ کر ر ہی ہے جب کہ پی ٹی آئی آزادکشمیر میں بھی’تبدیلی‘کانعرہ لگارہی ہے۔اس الیکشن میں سب سے بڑا مقابلہ LA 15 باغ کے حلقے کے انتخابات کو قرار دیا جارہا ہے جہاں پی ٹی آئی کے تنویر الیاس، مسلم کانفرنس کے راجہ یاسین، مسلم لیگ (ن) کے مشتاق منہاس، پیپلز پارٹی کے ضیا قمر اورجماعت اسلامی کے عبدالرشید ترابی ایک دوسرے کے مقابل ہیں لیکن اصل مقابلہ تنویر الیا س اور راجہ یاسین کے درمیان ہوگا۔امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی اور مسلم کانفرنس مل کر حکومت بنائیں گی، کیونکہ کوئی بھی پارٹی دو تہائی اکژیت حاصل کرنے میں قابل نظر نہیں آ رہی ہے۔حکومت بنانے لیے کسی بھی پارٹی کو 27 سیٹیں درکار ہوں گی۔امکان یہی ہے کہ پی ٹی آئی اکثریت تو حاصل کر لے گی لیکن مفاہمتی پالیسی کے تحت مسلم کانفرنس کو اقتدار میں شرکت کی دعوت دے سکتی ہے۔
ٖٖعمران خان کی حکومت نے کشمیر کے مسئلے کو عالمی فورم اور اقوام متحدہ میں بہترین طریقے سے اٹھایااور دو ٹوک موقف اختیا رکیاکہ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر کو اگست 2019کی پوزیشن پر بحال نہیں کرتا اس وقت تک بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں ہو سکتے اور نہ ہی تجارت بحال ہو گی۔ماضی کی حکومتیں اس طرح دوٹوک اور دلیرانہ موقف اپنانے سے گریز کرتی آ رہی ہیں۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے عمران خان کئی غیر ملکی چینلز کو انٹرویو دے چکے ہیں جن میں پاکستان اور کشمیر کے مستقبل کے لیے اُن کی سوچ نمایاں ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا لیکنکشمیر کے انتخابات میں حصے لینے والی تمام پارٹیوں کو بھی یہ علم ہے کہ اُن کے پاس ایسا کا کوئی لیڈر نہیں ہے جو عمران خان کا مقابلہ کر سکے۔
بدقسمتیسے کشمیری عوام برادری اور اقرباپروری کے حصار سے نہیں نکل سکے ہیں۔بہت سے علاقوں میں ووٹ کا فیصلہ افراد (یعنی ووٹر) نہیں بلکہ برادری کا سربراہ کرتا ہے، مجبوراًچھوٹی برادریوں کوبھی اپنی بقاء کے لیے اُس کا ساتھ دینا پڑتاہے۔ اگر کوئی برادری یافرداُس فیصلے کی مخالفت کرے تو اُسے نقصان اٹھانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔اِس صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیری عوام کو وہ قیادت میسر نہیں جو کہ کشمیر کے فیصلے کشمیر میں کرے، اس لیے پاکستان کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جس پارٹی کی حکومت پاکستان میں ہو تی ہے، کشمیر میں بھی اُسی پارٹی کی حکومت قائم ہوجاتی ہے۔۔اِس تاثر سے بھی ووٹر کی رائے تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ کسی ایسی پارٹی کو ووٹ دینے سے کتراتا ہے جس کی حکومت پاکستان میں نہ ہو۔مقامی سیاستدانو ں کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ُانہیں کسی طرح پاکستان کی حکمراں جماعت کا ٹکٹ مل جائے۔اِس لیے غالب امکان یہی ہے کہ کشمیر کے الیکشن میں یہ روایت برقرار رہے گی۔
میری رائے میں کشمیر ی عوام کو برادری ازم کے بت کو توڑنا ہو گا۔اپنی فکر کو آزاد کرنا ہوگا اور الیکشن میں حصہ لینے والوں کو اُن کی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر منتخب کرنا ہوگا۔ اگر کشمیری عوام اس بت کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے اورمذکورہ بنیادوں پرامیدواروں کو ووٹ دیا تو یقینا کشمیر میں تبدیلی آجائے گی۔ کشمیر ی عوام کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ پاکستان میں کس جماعت کی حکومت ہے بلکہ اس بات پر توجہ دینا چاہیے کہ کس پارٹی نے کشمیر کاز کے لیے کام کیے ہیں اور کس کے دور حکومت میں عوام کو بہتر سہولیات میسر آئیں۔عوام کو چاہیے کہ وہ الیکشن میں حصہ لینے والی پارٹی کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ امیدواروں کی ذاتی قابلیت، صلاحیت اور سابقہ کارکردگی کو بھی مد نظر رکھیں تاکہ مستقبل کے پانچ سال کافیصلہ کر سکیں۔ عوام نے ووٹ دے کر اپنا فرض تو پورا کردیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ فتح کس کے نصیبب میں آتی ہے اور کون آزاد جموں کشمیر کے عوام کی امیدوں کو پورا کرنے میدان عمل میں اترتا ہے۔