لاہورہائیکورٹ نے سانحہ سیالکوٹ میں دہشتگردی کی دفعات شامل کرنے کیخلاف درخواست خارج کر دی۔
جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ملزم محمد تیمور کی درخواست پر سماعت کی۔
ملزم کی جانب سے حافظ اسرارالحق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ سری لنکن شہری کے قتل کے مقدمہ میں دہشتگردی کی دفعات ختم کرنے کی ٹرائل کورٹ نے بلاجواز خارج کی۔
درخواست گزارکے وکیل نے کہا کہ عدالت کو مکمل اختیار ہے کہ کسی بھی وقت اور کسی بھی موقع پر فرد جرم میں ترمیم کرسکتی ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ ٹرائل عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی تو لکھا ہے کہ اگر جرم ثابت نہ ہوا تو ملزم بری ہو جائے گا۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ فرد جرم عائد کرتے ہوئے قانون کی منشا کو پورا نہیں کیا گیا۔
جسٹس علی باقر نے کہا کہ ہم تمام انسان ہیں، اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اس میں دہشتگردی کی دفعہ لگنی چاہئے تھی کہ نہیں۔
وکیل درخواست گزارنے کہا کہ نعش کو جلانے پر دہشتگردی کی دفعہ نہیں لگائی جا سکتی۔ اس کیس میں ایک فرد مارا گیا جو دہشتگردی کی تعریف میں نہیں آتا۔
جسٹس علی بار نجفی نے کہا کہ آپ کا مؤقف ٹھیک بھی ہو سکتا ہے۔ ابھی ٹرائل میں شہادت ریکارڈ ہونی ہے، ممکن ہے کہ دہشتگردی کی دفعہ خود ہی ختم ہو جائے۔
عدالت نے کہا کہ آپ کے دلائل میں ہو سکتا ہے کہ وزن ہو مگر ابھی تو کیس میں شواہد قلم بند ہو رہے ہیں۔
حافظ اسرارالحق ایڈووکیٹ نے کہا کہ 34 گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد جرح کروائی جا رہی ہے۔ کوٹ لکھپت جیل میں ہونے والے ٹرائل میں کسی ملزم کی طرف سے کوئی وکیل بھی پیش نہیں ہو رہا۔ سری لنکن شہری کو قتل کرنے کا وقوعہ باقاعدہ منظم منصوبے کے تحت نہیں تھا۔
مؤقف میں کہا گیا کہ سری لنکن شہری پریانتھا کمارکے قتل کا وقوعہ حادثاتی تھا، انسداد دہشتگردی عدالت نے بغیر اختیار فرد جرم عائد کی۔ وقوعہ میں ہرملزم کا کردارعلیحدہ علیحدہ بتایا گیا مگر فرد جرم ایک ہی لگائی گئی۔
یہ بھی مؤقف میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جب تک وقوعہ منظم، کسی کمیونٹی اور حکومت کیخلاف نہ ہو تو دہشتگردی کی دفعات نہیں لگ سکتیں۔ پولیس نے وہ پمفلٹ بھی قبضے میں نہیں لیے جن کی وجہ سے یہ وقوعہ پیش آیا۔
حافظ اسرارالحق ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت سری لنکن شہری کے قتل کے مقدمہ میں انسداد دہشتگردی کی دفعات ختم کرنے کا حکم دے۔