وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہےکہ اتوار کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں ملکی سمت کا فیصلہ ہوگا، کسی صورت استعفیٰ نہیں دوں گا، آخری گیند تک مقابلہ کروں گا۔
قوم سے اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اتوار کو اس ملک کا فیصلہ ہونے لگا ہے کہ ملک کس طرف جائے گا، وہ لوگ جن پر سالوں سے کرپشن کے الزامات ہیں،نیب کیسز ہیں، قوم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ملک کدھر جائے گا، مجھے کہا گیا کہ استعفیٰ دے دیں، میں آخری گیند تک مقابلہ کرتا ہوں ، ہار نہیں مانوں گا، دیکھنا چاہتا ہوں کہ کون جا کر اپنے ضمیرکا فیصلہ کرتا ہے، اگر کسی کو ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا تو استعفیٰ دیتے، ہم نوجوانوں کو آج کیا پیغام دے رہے ہیں، الٹا بھی لٹک جائیں تو کوئی نہیں مانےگا کہ یہ تین لوگ کوئی نظریاتی ہیں،
منحرف ارکان کو وزیراعظم کا کہنا تھاکہ ہمیشہ کیلئے آپ پر مہر لگنی لگی ہے، نا لوگوں نے آپ کو معاف کرنا ہے اور نہ بھولنا ہے، نہ ان کو معاف کرنا ہے جو ہینڈل کررہے ہیں، برصغیر کی تاریخ کیا ہے؟ میر صادق اور میر جعفر کون تھے جنہوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنی قوم کو غلام بنایا، یہ موجودہ دور کے میر جعفر اور میر صادق ہیں، آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی، اگر آپ کا خیال ہے کہ اس سازش کو کامیاب ہونے دیں تو سامنے کھڑا ہوں گا، مجھے امید ہے کہ سندھ ہاؤس میں موجود ہمارے لوگ ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں گے ورنہ قوم آپ کو معاف نہیں کرے گی، میں خاموش نہیں بیٹھوں گا، مجھے پرچی یا وراثت میں وزارت نہیں ملی، میں جدوجہد کرکے یہاں پہنچا ہوں، مقابلہ کروں گا۔
انہوں نےکہا کہ 7 یا 8 مارچ کو ہمیں امریکا (ایک ملک) سے پیغام آیا،مجھے ملک کا نام نہیں لینا تھا، ہے تو یہ وزیراعظم کے خلاف، ان کو پہلے سے پتہ تھا کہ تحریک عدم اعتماد آرہی ہے جس سے ظاہر ہے کہ اپوزیشن کے پہلے سے ہی باہر کے لوگوں سے رابطے تھے، یہ پاکستان کی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ عمران خان کے خلاف ہے، اُن کا کہنا ہےکہ اگر عمران خان چلا جاتا ہے تو ہم پاکستان کو معاف کردیں گے لیکن اگر تحریک ناکام ہوئی تو پاکستان کو مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آفیشل دستاویز ہے جس میں پاکستانی سفیر کو کہا گیا کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہا تو نہ صرف تعلقات خراب ہوں گے بلکہ پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، قوم سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ ہماری حیثیت ہے ؟ کہا گیا کہ بعد میں جو لوگ آئیں گے ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں، روس جانے پر یہ سب کچھ کہا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہےکہ تین اسٹوجز کے ان سے رابطے ہیں ، بیرون ملک ان کی کرپشن کے خلاف خبریں چھپی ہوئی ہیں، اپنے ملک کے لیے اُن کا اخلاقی معیار یہ ہےکہ چھوٹی سی چیز پر کسی بھی عہدیدار کو نکال دیتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سب کے بیک گراؤنڈ کا پتہ ہوتا ہے، ان لیڈروں کے بارے میں انہیں سب پتہ ہےکہ ان کی جائیدادیں کہاں ہیں، یہ تین لوگ انہیں پسند آگئے ہیں، دو پارٹیوں کے دور حکومت میں 10 سال کے دوران 400 ڈرون حملے ہوئے انہوں نے کبھی مذمت تک نہیں کی، اس لیے یہ انہیں پسند ہیں، وکی لیکس میں مولانا فضل الرحمان کے بارے میں انکشاف ہوا کہ پاکستان میں امریکی سفیر کو مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مجھے اقتدار دیں میں بھی وہی کروں گا جو دیگر کرتے ہیں، نواز شریف مودی سے چھپ چھپ کر ملتے تھے، شادیوں پر دعوتیں دیتے تھے، آصف زرداری نے کہا کہ فکر نہ کریں ڈرون حملے میں بے قصور لوگ مارے جاتے ہیں، شہباز شریف کے مطابق عمران خان نے ایبسلوٹلی ناٹ کہہ کر بڑی غلطی کی، ہم امن میں آپ کے ساتھ ہیں جنگ میں نہیں، ہم ایک آزاد خارجہ پالیسی چاہتے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بیرون ملک کئی پاکستانیوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، کسی نے ان پر بات نہیں کی، میری ذمہ داری 22 کروڑ لوگ ہیں میں نے ان کے لیے خارجہ پالیسی بنانی ہے، دستاویز کے بارے میں کہا گیا کہ یہ غلط ہے، پہلے ہم نے کابینہ میں اسے رکھا، اس کے بعد قومی سلامتی کونسل میں اسے رکھا، پھر پارلیمنٹ کمیٹی اور سینیئر صحافیوں کے سامنے لائے تاکہ بتائیں کہ اس میں کتنی خوفناک باتیں ہیں، یہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے ملک خراب کردیا، مجھے تو ساڑھے تین سال ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خودداری ایک آزاد قوم کی نشانی ہوتی ہے، جہاں انصاف نہیں ہوتا وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں، مسلمان قوم غلام نہیں بن سکتی، اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے، فرشتوں سے بھی بڑا درجہ دیا ہے، لیکن ہم میں جب ایمان کی کمزوری ہوتی ہے اور ہم پیسے اور خوف کی پوجا کرتے ہیں تو چیونٹی کی طرح رینگنے لگتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے بچپن میں ساری دنیا پاکستان کی مثالیں دیتی تھی، بعد میں اپنے ملک کو ذلیل ہوتے دیکھا، اللہ نے اگر انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو اس کی شرط رکھی ہے، نبی کریم ﷺ کا راستہ آسان نہیں تھا لیکن عظمت والا اور عزت والا راستہ تھا، اللہ نے ہمیں اسی راستے پہ چلنے کا حکم دیا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے ہمیشہ یہ کہا ہےکہ نہ میں کسی کے سامنے جھکوں گا نہ قوم کو جھکنے دوں گا ، جب اقتدار میں آیا تو فیصلہ کیا کہ ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہوگی یعنی پاکستان کے مفاد میں ہوگی ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی سے دشمنی چاہتے ہیں۔ جب جنرل مشرف نے پاکستان کو امریکا کی وار آن ٹیرر میں لے جانے کا فیصلہ کیا تو کہا گیا کہ امریکا کہیں ہمیں بھی نہ ماردے، میں نے اس وقت بھی کہا کہ اس جنگ میں ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ، نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، کسی کی جنگ میں پاکستانیوں کو کیوں قربان کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان جنگ میں پاکستان نے جو قربانی دی کسی اور امریکی اتحادی نے نہیں دی، قبائلی علاقوں کو باقیوں سے بہتر جانتا ہوں، قبائلی علاقہ سب سے پر امن علاقہ تھا وہاں جرائم ہوتے ہی نہیں تھے، جو ہمارے فیصلے کے بعد ان کے ساتھ ہوا اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے، جنگ کے بعد وہاں کے لوگوں نے شدید مشکلات دیکھیں، ان قربانیوں کا پاکستان کو کوئی صلہ نہیں ملا،قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کیے گئے، افغانستان آزاد ہونے سے پہلے کی بات کررہا ہوں، ہمیں بار بار ڈومور کہا گیا، میں نے ہمیشہ اس جنگ کی مخالفت کی اور ڈرون حملوں پر آواز اٹھائی، اس وقت کسی بڑے سیاستدان نے آواز نہیں اٹھائی کہ کہیں امریکا ناراض نہ ہوجائے، ہماری حکومتوں نے پوری طرح اس جرم میں شرکت کی، ڈرون حملوں میں مرنے والوں کے لواحقین ہم کو اس کا ذمہ دار سمجھتے رہے اور ہم پر حملے کرتے رہے۔