پیکا آرڈیننس آئین سے متصادم ہے کیوں نا اسے کالعدم کردیں، عدالت

پیکا آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے  چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ آرڈیننس کے ذریعے  ایکٹ کو مزید ڈریکونین بنا دیا گیا ہے  پیکا آرڈیننس کے سیکشن 20 کو کیوں نا کالعدم قرار دیا جائے؟

اسلام آباد ہائیکوٹ میں ایف آئی اے اختیارات اور پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک سیاسی ورکر نے پبلک آفس ہولڈر کے خلاف تقریر کی  اور6ماہ جیل میں رہا۔قانون پبلک آفس ہولڈرز کے تحفظ اور آزادی اظہار کو دبانے کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔ آرڈیننس کے ذریعے  ایکٹ کو مزید ڈریکونین بنا دیا گیا ہے واحد سوال یہ ہے کہ سیکشن 20 کو کیوں نہ کالعدم قرار دیا جائے؟

چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر حکومت کو پرائیویٹ لوگوں کی ہتک کا اتنا خیال ہے تو پبلک آفس ہولڈرز کو نکال دے۔مجھے چیف جسٹس ہوتے ہوئے تنقید سے نہیں گھبرانا چاہیے۔ہر پبلک آفس ہولڈر کی ساکھ اس کے فیصلوں اور اسکے اعمال سے ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت کافی عرصے سے اس معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہےسیاسی جماعتیں اور رہنما سوشل میڈیا پر ہونے والے اقدامات کے خود ذمہ دار ہیں۔ جب آپ خود یہ چاہتے ہیں تو پھر تنقید سے کیوں ڈرتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا پر چلنے والی چیزوں کی ذمہ دار ہیں۔اداروں نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنا رکھے ہیں۔اداروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کیوں ہونے چاہئیں۔پھر آپ اسی سوشل میڈیا کے خلاف قانون لے آتے ہیں۔یہی سیاسی جماعتیں اپنی سوشل میڈیا ٹیمز سے یہ سب کراتے ہیں۔پھر سوشل میڈیا پر الزام کیوں لگایا جا رہا ہے۔میرے خیال میں صرف جماعت اسلامی اس کا حصہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ پوری دنیا میں طے ہے کہ آزادی اظہار پر کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔اداروں کے بنیادی حقوق یا ساکھ نہیں ہوتی، وہ ہتک عزت میں کیسے آ سکتے ہیں۔ جس طرح لاہور سے دو صحافیوں کو اٹھایا گیا اسکی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔پھر آپ بیان حلفی دیں کہ ان آرڈیننسز کے تحت کارروائیاں نہیں کی جائیگی۔

انہوں نے کہا ہے کہ اس آرڈیننس میں پبلک باڈیز کی ساکھ بھی بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔آپ نے تو نیچرل پرسن کی تعریف کو بھی آرڈیننس میں تبدیل کر دیا ہے۔اس عدالت کو عوام کے اعتماد کی پرواہ ہے، تنقید کی کوئی پرواہ نہیں۔ یہ عدالت نہیں چاہے گی کہ غلط تنقید پر بھی کسی کو جیل بھیج دیا جائے۔

انہوں ریمارکس دیے ہیں کہ جتنا نقصان نیب اور اسکے قانون نے پہنچایا ہے اس کی تو کوئی مثال نہیں۔پبلک باڈیر کا کونسا بنیادی حق ہے، اس ہائیکورٹ کا کونسا بنیادی حق ہے؟جتنی بھی غلط تنقید ہو اس عدالت کو تو گھبرانا ہی نہیں چاہیے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 19 سے متصادم ہے، عدالت یہ پوچھ رہی ہے کیوں نہ اس قانون کو کالعدم کر دیں؟

اپنا تبصرہ بھیجیں