بھارتی مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ روز یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعد صورتحال کشیدہ رہی۔ مرکزی شہر سرینگر میں تاجروں نے دکانیں بند رکھیں جبکہ انتظامیہ نے انٹرنیٹ کی سہولت معطل کردی۔
مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے حامی معروف سیاسی رہنما یاسین ملک کی رہائش کے باہر نوجوانوں اور خواتین نے اُن کے حق میں جم کر نعرے بازی بھی کی۔ مقامی پولیس اور بھارت کے نیم فوجی دستوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی انتظامیہ نے بڑی تعداد میں نیم فوجی دستوں اور مقامی پولیس کے اہلکاروں کو یاسین ملک کی رہائش گاہ کے باہر پہلے ہی تعینات کر رکھا تھا۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سیاسی جماعتوں کے نئے اتحاد پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلریشن نے یاسین ملک کی عمر قید کی سزا کو امن کی کاوشوں کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔
گپکار اتحاد کے ترجمان اعلیٰ اور کمیونسٹ لیڈر یوسف تاریگامی نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک کی سزا سے خطے کے حالات مزید ابتر ہوں گے۔ عدالت کے اس فیصلے سے کشمیر میں علیحدگی پسند جذبات کو فروغ ملے گا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما نجم ثاقب کے مطابق یاسین ملک کو سزا دینے کا فیصلہ افہام و تفہیم کی پالیسی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ یاسین ملک کے عدم تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے فیصلے کو ہندوستان بھر میں سراہا گیا تھا اور ان کی جدوجہد کا موازنہ گاندھی کی جدوجہد سے کیا جا رہا تھا۔ بی جے پی مقبوضہ کشمیر کے حالات کو مزید بگاڑنا چاہتی ہے تاکہ یہاں انتخابات نہ ہوں۔
واضح رہے کہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں عدالت نے 56 سالہ یاسین ملک کو مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کے لیے چندہ جمع کرنے، بھارت مخالف مہم اور افراتفری پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے اور انڈین پینل کوڈ کی دفعات 120B اور 124A کے تحت عمر قید کی سزا سنائی ہے اور انہیں دس لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا ہے۔ وہ تقریباً بیس برس تک اپنے ہی گھر میں نظر بند بھی رہے۔