سری لنکا میں کسان بھی حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہو گئے

سری لنکا میں کسانوں کی جانب سے بڑی مقدار میں استعمال ہونے والی کھاد کی درآمد پر پابندی نے صرف کسانوں کی فصلوں کو متاثرنہیں کیا بلکہ ان کی راج پاکسے خاندان کی حمایت کو بھی ختم کر دیا ہے۔

گزشتہ سال صدر گوٹابیا راج پاکسے کی حکومت نے زرعی کیمیائی مواد کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی تاکہ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو بچایا جا سکے اور قرضے کی ادائیگیاں کی جا سکیں۔ اس وقت راج پاکسے حکومت نے کہا تھا کہ اس اقدام کا مقصد سری لنکا کو کیمیائی فارمنگ سے دور کرنا اور قدرتی اور دیسی طریقے سے کاشت کاری کرنے والا ملک بنانا ہے۔

یہ فیصلہ کسانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ فصلوں کی پیداوار گر گئی اور ان کسانوں کی آمدن ایک ایسے وقت میں کم ہو گئی جب پہلے ہی تیل، خوراک اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں۔

سری لنکا کی بائیس ملین آبادی میں سے قریب ایک چوتھائی کا انحصار زراعت پر ہے۔ ماضی میں اس جزیرہ ملک کی زراعت خاص طور پر یہاں کی مقبول سیلون چائے کی کامیابی کے اعتراف سے کیا جاتا تھا۔ صرف سیلون چائے کی کاشت سے اس ملک کو سالانہ قریب 1.3 ارب ڈالر حاصل ہوتے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ زرعی کیمیائی مواد کی درآمد پر پابندی کسانوں کو خبردار کیے بنا عائد کر دی گئی تھی اور اس پابندی سے قبل کسانوں کو نئے طریقے کار سے کاشت کرنے کی تربیت نہیں دی گئی تھی۔

2021ء کے آخر میں راج پاکسے حکومت نے درآمد شدہ کھاد پر پابندی کا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ راج پاکسے نے اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا تھا لیکن اب یہ کیمیائی کھاد بہت مہنگی ہو گئی ہے۔

حکومت نے گزشتہ ماہ اعلان کیا کہ وہ کسانوں کو سبسڈی دے گی لیکن بہت کم لوگوں کو امید ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف ملے گا۔ اب دیگر شہریوں کی طرح سری لنکا کے کسان بھی صدر راج پاکسے کے استعفے کا مطالبہ لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں