گلوکارہ نازیہ حسن کی موت زہر کی وجہ سے نہیں ہوئی، اسکاٹ لینڈ یارڈ

لندن: ماضی کے معروف گلو کار زوہیب حسن نے چند دن پہلے اپنی بہن اور معروف گلوکارہ مرحومہ نازیہ حسن کی موت کا ذمہ دار ان کے شوہر اور کراچی کے صنعت کار مرزا اشتیاق بیگ کو قرار دیا تھا جس پر انہوں نے زوہیب حسن کو ایک ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا تھا ۔ترجمان اسکاٹ لینڈ یارڈ کا کہنا ہے کہ نازیہ حسن کی موت کی وجہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر واضح ہے اور پولیس نے گلوکارہ کے شوہر اشتیاق بیگ سے تحقیقات کے بعد کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

قانونی ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے اجراء کے بعد موت کی وجہ پر قیاس آرائی کا امکان ختم ہو جاتا ہے، مکمل چھان بین کے بعد پولیس معاملے کی دوبارہ تحقیقات نہیں کرتی۔سکاٹ لینڈ یارڈ کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کے مطابق نازیہ حسن کی موت قدرتی وجوہات کی بنا پر ہوئی اور انہیں زہر دے کر نہیں مارا گیا اور نہ ہی انہیں قید کر کے رکھا گیا تھا۔

نازیہ حسن کا 13 اگست 2000 کو انتقال ہوگیا، لیکن حکام نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ماہر ٹیم کی سربراہی میں فرانزک تحقیقات کے پانچ ماہ بعد 9 جنوری 2001 کو ان کی لاش کو لواحقین کی تحویل میں دی تھی۔ موت کی وجوہات کی مکمل تحقیقات کے بعد ، موت کا سرٹیفکیٹ 9 جنوری 2001 کو مقامی برینٹ کونسل کے رجسٹرار ایس پالومبو نے جاری کیا۔تحقیقاتی ٹیم کے مطابق نازیہ حسن کی موت کی وجہ پلمونری تھرومبو امبولزم تھی، رگوں کی گہرائی میں انجماد خون اور بائیں پھیپھڑے کی خرابی تھی۔

 زوہیب حسن اور نازیہ حسن کے خاندان کے دیگر افراد بشمول والد بشیر حسن اور والدہ منزہ حسن نے دعویٰ کیا تھا کہ گلوکارہ کی موت کے وقت نازیہ حسن اور اشتیاق بیگ پہلے ہی طلاق لے چکے تھے لیکن برطانیہ کے حکام نے سرٹیفکیٹ میں لکھا کہ نازیہ حسن ایک پیشے کے لحاظ سے گلوکارہ اور یہ کہ وہ اپنی موت کے وقت 57-گولڈرز گرین ، لندن ، NW11 کے اشتیاق بیگ کی بیوی تھیں اور دونوں نے ایک ہی ایڈریس شیئر کیا تھا جو کہ اس وقت بھی اشتیاق بیگ کی ملکیت ہے۔

زوہیب حسن کے مطابق نازیہ کے جسم میں زہر تھا کیونکہ کیموتھراپی خود زہر کے ذریعے کی گئی تھی۔ڈاکٹر زہروں میں فرق نہیں کر سکے اور اس کے نتیجے میں رپورٹ غیر حتمی تھی تاہم برطانیہ کے حکام کے ریکارڈ زوہیب حسن کے دعوے اور اصل الزام سے متصادم ہیں۔

نازیہ اور اشتیاق بیگ کی شادی 28 جولائی 1995 کو لندن بورو آف وانڈس ورتھ میں واقع وینڈس ورتھ رجسٹرار آفس میں ہوئی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں