پاک سر زمین شاد باد، قومی ترانہ کیسے تخلیق ہوا

کسی بھی ملک و قوم کی پہچان اس کے قومی ترانہ کو سمجھا جاتا ہے۔جب بھی ہمارے قومی ترانے کی دھن بجائی جاتی ہے تو ہم سب احتراماً کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے قومی ترانے کی خاص بات یہ ہے کہ پہلے اس کی دھن منظور ہوئی اوربعد میں اسے لکھا گیا ۔ہمارا قومی ترانہ کس طرح تیار کیا گیا اور اسے مکمل کرنے میں کس کس نے اپنا کردار ادا کیاآئیے نظر ڈالتے ہیں ۔

پاکستان کے قومی ترانے کا شمار دنیا کے چند بہترین ترانوں میں ہوتا ہے کیونکہ یہ تہذیب و تمدن، ثقافت، اقدار، جذبات، احساسات، رہن سہن، بزرگوں اور مادرِوطن سے محبت تک سب کا احاطہ کرتا ہے۔پاکستان کا قومی ترانہ” پاک سر زمین شاد باد” 13 اگست 1954ءکو پہلی بار ریڈیو پاکستان سے نشر کیا گیا ۔قومی ترانے کی دھن احمد غلام علی چھاگلہ نے1949 میں ترتیب دی جبکہ ترانے کے بول معروف شاعرحفیظ جالندھری نے1954 میں تخلیق کیے۔ قومی ترانہ ہر پاکستانی کے زبان زدِ عام ہے اور سکول سے لے کر قومی اسمبلی تک ہر اہم مواقع پر اس کی دھنیں بجائی جاتی ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماراقومی ترانہ فارسی زبان میں تحریر کیا گیاہے ، اس کے اندر کل15مصرعے ہیں جبکہ اس کے دوسرے بند میں صرف قومی زبان اردو کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قومی ترانے میں استعمال ہونے والا واحد اور اکلوتا لفظ ”کا “ ہے جو کہ دوسرے بند میں شامل ہے۔ دوسرے بند کے ابتدائی مصرعے ”پاک سر زمین کا نظام “ میں صرف اس لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس ترانے کو اس وقت کے گیارہ معروف سنگیت کاروں نے مل کر گایا جن میں احمد رشدی، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آرا، نسیمہ شاہین، زوار حسین، اختر عبّاس، غلام دستگیر، انور ظہیر اور اختر وارث علی شامل ہیں۔

اس سے قبل قومی ترانے کی تیاری کے حوالے سے یکم مارچ 1949 کو ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی ہدایت پر کراچی میں اجلاس ہوا ۔اجلاس میں قومی ترانہ تیار کرنے کے لیے کمیٹی بنائی گئی جس کے بعد اخبارات کے ذریعے ملک کے شعراء اور موسیقار حضرات کو قومی ترانہ لکھنے اور اس کی دھن بنانے کی دعوت دی گئی ۔کمیٹی کے ارکان نے 21 جولائی 1949 کو‌ مشہور موسیقار احمد جی چھاگلہ کی مرتب کی گئی قومی ترانے کی دھن کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا ۔قومی ترانے کی دھن کی تشکیل کا ایک مرحلہ مکمل ہونے کے بعد اس دھن کو ریڈیو پاکستان میں بہرام رستم جی نے اپنے پیانو پر بجاکر ریکارڈ کروایا تھا ۔ قومی ترانے کی اس دھن کا دورانیہ ا80 سیکنڈ یعنی 1منٹ 20 سیکنڈتھا اور اسے بجانے میں 21 آلاتِ موسیقی اور 38 ساز استعمال ہوئے تھے ۔ اس دھن کو پہلی مرتبہ یکم مارچ 1950ء کو پاکستان میں ایران کے سربراہ مملکت کی آمد پر بجایا گیا تھا۔

دُھن کی تیاری کے بعد اس کی مناسبت سے الفاظ کو اشعار میں ڈھالنا بے حد ضروری تھا، تمام معروف شعرا کو دھن سنوائی گئی اور ہر رات ریڈیو پر بھی نشر کروائی جاتی رہی۔ قومی ترانہ کمیٹی کو 1949سے 1954تک پانچ سال کے عرصے کے دوران 723 ممتاز شاعروں کے ترانے موصول ہوئے لیکن ترانہ کمیٹی نے حکیم احمد شجاع، حفیظ جالندھری اور سید ذوالفقار علی بخاری کے ترانوں کومنتخب کیا ۔ 4 اگست1954 کو پاکستان کی مرکزی کابینہ نے حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے ترانے کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کرلیا جس کے بعد 13 اگست 1954 کو یہ ترانہ پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا قومی ترانہ تین بندوں پر مشتمل ہے ،اس کا اقتباس اور ترجمہ ملاحظہ کیجئے:

پاک سر زمین شاد باد
کشور حسین شاد باد
تو نشان عزم عالی شان
ارض پاکستان
مرکز یقین شاد باد


ترجمہ
اے پاک سرزمین تو ہمیشہ شاد باد رہے
اے ہمارے حسین مملکت تو ہمیشہ شاد باد رہے
ارض وطن تو ہمارے عزم عالی شان کی علامت ہے
تو ہمارے یقین اور ایمان کا مرکز ہے


پاک سر زمین کا نظام
قوت اخوت عوام
قوم، ملک، سلطنت
پائندہ، تابندہ باد
شاد باد منزل مراد


ترجمہ
اے پاک سرزمین عوام کی قوت اور عوام کی اخوت ہی تیرا نظام ہے
یہ قوم اور یہ ملک اور یہ سلطنت ہمیشہ قائم رھے ہمیشہ تابندہ رہے
اے ہماری منزل مراد تو ہمیشہ شاد باد ہے


پرچم ستارہ و ہلال
رہبر ترقی و کمال
ترجمان ماضی، شان حال
جان استقبال
سایۂ خدائے ذوالجلال


ترجمہ
چاند ستارے والا سبز پرچم
ہماری ترقی اور اوج کمال کا رہبر ہے
یہی پرچم ہماری ماضی کا ترجمان ہے اور زمانہ حال میں ہماری شان ہے
اس مملکت پر ہمیشہ خدا کی رحمت برسے

پاکستان مانونٹ میوزیم میں ایک گوشہ خالق ترانہ سے موسوم کیا گیا ہے ، جہاں حفیظ جالندھری کے ہاتھ سے لکھا ہوا ترانہ ، ان کی عینک اور وہ قلم بھی محفوظ کیا گیا ہے جس سے ترانہ لکھا گیا ۔ میوزیم میں قومی ترانے کی تیاری کے مختلف مراحل یعنی تاریخ کوبھی دیکھا جا سکتا ہے۔ حفیظ جالندی کے زیر استعمال جناح کیپ بھی میوزیم میں رکھی گئی ہے ۔ قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کے زیر استعمال اشیا کو محفوظ بنا کر نوجوان نسل کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو یاد رکھتی ہیں ۔

قومی ترانے کے حوالے یہ یہ تنازعہ بھی سامنے آیا کہ پاکستان کا پہلا ترانہ قائداعظم نے جگن ناتھ آزاد سے لکھوایا تھا کچھ گوشوں سے یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے جگن ناتھ آزاد کا لکھا یہ قومی ترانہ نشر کیا گیا اور عام لوگوں نے اس پر یقین کرنا شروع کر دیا۔لیکن تاریخی اعتبار سے جگن ناتھ کے ترانے کے قومی ترانہ ہونے کے شواہد نہیں ملتے تاہم بعد میں محققین نے اس دعوی کو مضحکہ خیز قرار دیا جس کے بعد اس دعوی کو ترک کر دیا گیا، مگر بعد میں بھی دہرایا جاتا رہا ہے۔

عقیل عباس جعفری اپنی کتاب ”پاکستان کا قومی ترانہ: کیا ہے حقیقت کیا ہے فسانہ؟“ میں لکھتے ہیں کہ:

”ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ کے مطالعے اور ڈاکٹر صفدر محمود کی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات پایہء ثبوت کو پہنچتی ہے کہ 14 اور 15 اگست 1947 کی درمیانی شب ریڈیو پاکستان کی اولین نشریات میں جگن ناتھ آزاد کا کوئی نغمہ یا کوئی ترانہ شامل نہ تھا۔ ممکن ہے کہ جگن ناتھ کا تحریر کردہ نغمہ جسے وہ خود ترانہ اور ان کے مداحین قومی ترانہ کہنے پر مصر ہیں، بعد میں کسی اور وقت نشر ہوا ہو، مگر ابھی تک ریڈیو پاکستان کا کوئی ریکارڈ یا ریڈیو پاکستان سے تعلق رکھنے والی کسی شخصیت کی کوئی تحریر اس کی بھی تصدیق نہیں کر سکی ہے۔“

قو می ترانے کے ان خالقوں احمد غلام علی چھاگلہ اور حفیظ جالندھری کو حکومت پاکستان نے باقاعدہ طور پر اعزازات سے بھی نوازا، جبکہ 1958 میں انہیں ہلال امتیاز اور صدارتی ایوارڈز بھی دیے گئے۔

قومی ترانے کے خالق کی حیثیت سے حفیظ جالندھری نے شہرت دوام پائی، ملکہ پکھراج نے ان کی نظم ابھی تو میں جوان ہوں کو گا کر امر کردیا،آپ 21دسمبر 1982 کو ، 82 برس کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

تحریر: افتخار خان، کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں