ریلوے کا خسارہ 3 سال میں بڑھ کر 40 ارب روپے تک پہنچ گیا

سی پیک کے انتظار میں ریلوے اثاثوں کی مرمت اور دیکھ بھال میں کمی اور حادثات میں اضافہ ہو گیا اور محکمہ ریلوے کا تین سال کے دوران سالانہ خسارہ بڑھ کر  40 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔

موجودہ حکومت کے تین سالہ دور میں مسافر ٹرینوں کی تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہو گئی ہے، 57 مسافر ٹرینیں بند اور صرف 85 چل رہی ہیں۔ ان میں سے بھی 70 نجی شعبے کے اشتراک سے چلانے کے لیے ٹینڈر جاری کیے جا چکے ہیں تاہم یہ عمل بھی سست روی کا شکار  ہے۔

پاکستان ریلوے کے پاس انجنوں کی تعداد 480 سے کم ہو کر 472 اور مسافر کوچز  460 سے کم ہو کر 380 رہ گئی ہیں جبکہ مال گاڑیوں کے 2000 ڈبے بھی کم ہو گئے ہیں۔

ریلوے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار سے کم ہو کر 72 ہزار  رہ گی ہے جبکہ پنشنرز ایک لاکھ 15 ہزار سے بھی تجاوز کر گئے ہیں۔

ریلوے ٹریک، پل اور سگنل سسٹم سمیت دیگر اثاثوں کا 60 فیصد حصہ انتہائی کمزور ہو چکا ہے، میرج ٹرین، لاہور واہگہ اور لاہور گوجرانوالہ کے درمیان چلنے والی ٹرینیں بھی بند کر دی گئی ہیں۔ انٹرنیشنل مال گاڑی بھی بحال نہ ہو سکی۔

ریلوے افسران کی شاہانہ سیلونز کرائے پر دینے کا تجربہ بھی کامیاب نہ ہوا، کراچی سرکلر ریلوے بحال ضرور ہوئی لیکن ادھوری، ریلوے ٹریک پر 2 ہزار 382 مقامات پر پھاٹک نہیں ہیں۔

تین سال میں درجنوں حادثات ہوئے، 2019ء میں تیز گام میں لگنے والی آگ اور جون 2021 میں سکھر ڈویژن میں مسافر ٹرینوں کے حادثے میں 150 سے زائد مسافر لقمہ اجل بن گئے۔

ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ریلوے عوامی مفاد کا قومی ادارہ ہے جسے کمرشل بنیادوں پر چلانا مشکل ہے، کورونا کی وجہ سے ٹرینوں کی بندش اور کم مسافروں کے ساتھ چلانے سے بھی خسارے میں اضافہ ہوا۔

ریلوے حکام کہتے ہیں کہ ریلوے کا 64 فیصد بجٹ تنخواہوں اور پنشن اور 18 فیصد ڈیزل کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے۔

ریلوے حکام کے مطابق سی پیک پر عمل درآمد ہونے سے ریلوے کی کایا پلٹ جائے گی، کراچی سے پشاور اور ٹیکسلا سےحویلیاں تک بغیر  پھاٹک ریلوے ٹریک بچھانے سے ٹرینیں 90 کی بجائے 160 کلومیٹر کی رفتار سے چلنا شروع ہو جائیں گی، پھر ریل کا سفر محفوظ اور  تیز ہوجائے گا، ریلوے منافع بخش ادارہ بھی بن جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں