جانی کیا آج میری برسی ہے: باغی اور روایت شکن جون ایلیا کی 19 ویں برسی

فکر مرجائے تو پھر جون کا ماتم کرنا
ہم جو زندہ ہیں تو پھر جون کی برسی کیسی

جون ایلیا کو اردو نثر اور نظم میں ان کے منفرد اسلوب اور غیر روایتی انداز نے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔موضوعات اور غیر روایتی انداز کے باعث انہیں باغی اور روایت شکن شاعر کی حیثیت سے شہرت ملی۔ بیک وقت لفظی جمالیات سے زندگی کی تلخیوں سے لبریز اشعار تخلیق کرنے والے شاعر جون ایلیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پڑھنے والوں کے قریب تر آتے جا رہے ہیں۔

آج کے دن جون کو اس دنیا سے بچھڑے 19 برس گزر چکے ہیں  لیکن  ان کی شاعری کی انفرادیت اب بھی ویسی ہی ہے جیسی ان کی حیات  میں تھی۔

جون ایلیا 14 دسمبر 1931 کو امروہہ کے ایک علمی اور ادبی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے بھائی رئیس امروہوی بھی نمایاں شاعر تھے اور انہوں نے جنگ اخبار میں روزانہ قطعہ لکھ کر شہرت حاصل کی تھی۔

جون ایلیا نے پہلا شعر صرف آٹھ سال کی عمر میں کہا اور پھر عمر بھر سخن وری کرتے رہے۔وہ برصغیر ‏میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار ‏اور عالم تھے، جنہیں انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔

میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب

اس کا بے حد لحاظ کیجئے گا

1957 میں  ہجرت کر کے پاکستان آمد کے بعد کراچی کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا اور  جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ جون کی شاعری ان کے متنوع مطالعے کی عادات کا واضح ثبوت تھی جس کی وجہ سے ان کے کلام کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔

جون ایلیا کو ‏عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی زبانوں میں مہارت ‏حاصل تھی۔ انہیں اقدار شکن، منفرد اور باغی کہا جاتا ہے۔

علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں

وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے

 جون نے اردو شاعری کو ایک نئی جہت سے روشناس کروایا۔ جون ایلیا نے درد میں ڈوبے کئی شعر کہے، اور عشقیہ شاعری میں تو جیسے انہیں کمال حاصل تھا۔

کس لیے دیکھتی ہو آئینہ

تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

شاعری میں انتہائی سادہ الفاظ سے ایک مشکل مضمون کو بیان کرنا ان کا  ایک خاص وصف رہا ہے۔

مستقل بولتا ہی رہتا ہوں

کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

جون ایلیا عجز و انکساری، جذبات اور محبت کے شاعر تھے، ان کا اسلوب آج بھی دنیا ئے شعر و ادب میں منفرد مانا جاتا ہے۔لیکن انہیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔

ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏’شاید‘ اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ ’یعنی ‘ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان ’گمان ‘2004ء میں شائع ہوا۔

شرم، دہشت، جھجھک، پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
آپ، وہ، جی، مگر یہ سب کیا ہے
تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں

جون ایلیا  8 نومبر 2002ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے، انہیں کراچی میں واقع سخی حسن  کےقبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں