افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی، کب کیا ہوا؟

کابل: امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے 3 ماہ سے بھی کم عرصے بعد طالبان افغانستان کے 34 صوبائی دارالحکومتوں میں سے اکثر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

افغانستان میں طالبان کی جارحانہ پیش قدمی شروع ہونے کے تین مہینوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

شدید لڑائی
مئی کے اوائل میں نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) نے افغانستان سے 9600 فوجیوں کا انخلا شروع کیا جن میں 2500 امریکی تھے۔

انخلا کے بعد جنوبی صوبے ہلمند میں طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان شدید لڑائی شروع ہو گئی۔

کابل میں 8 مئی کو گرلز اسکول کے باہر ہونے والے بم دھماکے میں 85 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر نوجوان طالب علم تھے۔

ایک سال میں ہونے والے مہلک ترین حملے کی ذمہ داری طالبان پر عائد کی جاتی ہے تاہم وہ اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔

طالبان کی پیش قدمی
مئی کے وسط میں امریکی افواج ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر قندھار میں افغانستان کے سب سے بڑے ہوائی اڈوں سے پیچھے ہٹ گئیں۔

اس کے بعد طالبان نے کابل کے قریب صوبہ وردک اور اہم صوبے غزنی پر قبضہ کر لیا جو دارالحکومت کو قندھار سے ملانے والی سڑکوں پر پھیلا ہوا ہے۔

جون کے وسط تک طالبان شمالی صوبوں کے کئی اضلاع پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور افغان فوجی پسپائی پر مجبور ہو گئے۔

22 جون کو طالبان نے تاجکستان کے ساتھ شیر خان بندر کی مرکزی گزرگاہ کا کنٹرول سنبھال لیا جس سے وسطی ایشیائی ملک اپنی مسلح افواج کی جنگی تیاری چیک کرنے پر مجبور ہوا۔

امریکا کا بگرام سے انخلا
2 جولائی کو افغانستان کی سب سے بڑی ائیر بیس بگرام سے تمام امریکی اور نیٹو فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا گیا، یہ فوجی اڈہ 2 دہائیوں سے افغانستان میں امریکی قیادت میں ملٹری آپریشنز کے لیے کام کرتا تھا۔

دو دن بعد طالبان نے قندھار کے اہم ضلع پنج وائی پر قبضہ کر لیا۔ قندھار کو طالبان کا سابقہ مرکز اور گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔

9 جولائی کو طالبان نے اسلام قلعہ پر قبضہ کرنے کا اعلان کیا جو افغانستان کی ایران کے ساتھ سب سے بڑی سرحدی گزرگاہ ہے۔

14 جولائی کو مجاہدین نے پاکستان کے ساتھ اسپن بولدک بارڈر کراسنگ کا کنٹرول سنبھال لیا جو دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم تجارتی راستہ ہے۔

شہری حملہ
اس کے بعد سے طالبان نے افغانستان کے مختلف شہروں کے مراکز پر تیزی سےحملے شروع کیے۔

امریکا اور برطانیہ کا کہنا ہے کہ طالبان نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ انہوں نے طالبان پر اسپن بولدک میں “شہریوں کا قتل عام” کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

3 اگست کو کابل میں افغان وزیر دفاع اور کئی قانون سازوں کو نشانہ بنانے والے مربوط بم اور مسلح حملے میں 8 افراد ہلاک ہوئے جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی۔

6 اگست کو طالبان نے دارالحکومت کابل کی ایک مسجد میں افغان حکومت کے میڈیا انفارمیشن سینٹر کے سربراہ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے
طالبان نے اپنا پہلا افغان صوبائی دارالحکومت فتح کیا۔ طالبان نے جنوب مغربی صوبے نمروز کے شہر زرنج پر “بغیر کسی لڑائی کے” قبضہ کر لیا۔

اگلے چند روز میں کئی دوسرے شمالی شہر بشمول شبرغان، قندوز، سر پل، تالوقان، ایبک، فاراح اور پل خمری طالبان کے قبضے میں چلے گئے۔

طالبان کی مسلسل پیش قدمی اور عالمی خدشات کے باوجود امریکی صدر جو بائیڈن انخلا کی آخری تاریخ میں تاخیر کی کوئی تجویز زیرغور نہیں لائے۔

11 اگست کو افغان صدر اشرف غنی محصور شمالی شہر مزار شریف پہنچتے ہیں اور وہاں اپنی افواج کو جمع کرتے ہیں۔

تاہم اشرف غنی کا دورہ قریبی قندوز میں سیکڑوں افغان فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے اور نویں صوبائی دارالحکومت فیض آباد پر راتوں رات قبضے کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔

طالبان کابل کے مضافات میں
12 اگست کو طالبان نے کابل سے 150 کلومیٹر (90 میل) جنوب مغرب میں غزنی پر قبضہ کر لیا۔

اسی دن ہرات پر بھی طالبان اپنا پرچم لہراتے ہیں جب کہ ایک دن بعد طالبان نے قندھار اور جنوب میں لشکر گاہ پر قبضہ کر لیا۔

14 اگست کو طالبان اسد آباد اور گردیز شہر کے ساتھ ساتھ مزار شریف پر بھی قبضہ کر لیتے ہیں اور وہاں سے افغان فورسز اور طالبان مخالف دو سابق جنگجو کمانڈر بغیر مزاحمت کے فرار ہو جاتے ہیں۔

15 اگست یعنی آج علی الصبح طالبان نے جلال آباد بھی اپنے قبضے میں لے لیا جس کے بعد صرف کابل واحد بڑا شہر ہے جو حکومتی کنٹرول میں ہے۔

طالبان اعلان کرتے ہیں کہ وہ طاقت کے زور پر کابل کو فتح نہیں کریں گے اور مذاکرات سے کام لیں گے۔

طالبان اور افغان حکام کے درمیان کابل پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ بھی طے پا گیا ہے جس کے مطابق طالبان کو اقتدار کی منتقلی پرامن طریقے سے ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں