اسٹیٹ بینک نے کاروبار میں آسانی کے لیے فارن ایکسچینج مینوئل میں تبدیلیوں کا اعلان کردیا

اسٹیٹ بینک نے کاروبار میں آسانی کے لیے فارن ایکسچینج مینوئل میں تبدیلیوں کا اعلان کردیا

بینک دولت پاکستان نے کاروبار کرنے میں آسانی کو فروغ دینے اور خدمات کے اکاؤنٹ کے تحت بیرونِ ملک قانونی تجارتی ادائیگیوں کے لیے سہولت کی خاطر تجارتی ترسیلات سے متعلق زرِ مبادلہ ہدایات پر نظرِثانی کا اعلان کیا ہے۔

فارن ایکسچینج مینوئل کے مذکورہ چیپٹر 14 میں کی گئی ان اہم تبدیلیوں کا تعلق درج ذیل پالیسیوں سے ہے:

اشیا سازی کے شعبے کے لیے رائلٹی، فرنچائز اور ٹیکنکل (آر ایف ٹی) فیس کی ترسیلات: اسٹیٹ بینک نے آر ایف ٹی فیس کی ترسیلات پر پالیسی پر نظرِ ثانی کی ہے۔ نظرِ ثانی شدہ پالیسی کے تحت بینکوں کو یہ اتھارٹی دی گئی ہے کہ وہ متعلقہ فریقوں کے معاہدوں کو رجسٹر کریں اور آر ایف ٹی فیس کی ترسیلات کی اجازت دیں۔ کاروباری طبقے کی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے اس قسم کی فیس کی ترسیلی حد بھی بڑھا دی گئی ہے۔ چنانچہ، اب اشیا سازی کے شعبے کے ادارے ایڈوانس رقم کی ادائیگی کے لیے ایک ملین امریکی ڈالر اور خالص فروخت کا 8 فیصد تک (ٹیکس اور درآمدی اشیا کی لاگت منہا کرکے) اپنے متعلقہ بینک کے ذریعے بھجوا سکتے ہیں۔ مزید برآں، برآمدات سے متعلق اشیا سازی پر رائلٹی کی ایک نئی کیٹیگری متعارف کرائی گئی ہے جس کے تحت غیر ملکی اداروں کے ساتھ اشتراک کرنے والے پاکستانی ادارے خالص برآمدی فروخت کی 10 فیصد تک رقم (ٹیکس اور درآمدی اشیا کی لاگت منہا کرکے) انہیں بطورrecurring رائلٹی بھجوا سکتے ہیں۔

خدمات کا حصول: کاروباری اداروں کا بیرون ملک سے حاصل کی جانے والی ڈجیٹل خدمات پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے جس کے پیش نظر ، اسٹیٹ بینک نے 62 معتبر(whitelisted) ڈجیٹل خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کو دی گئی سالانہ حد 2 لاکھ امریکی ڈالر سے بڑھا کر4 لاکھ امریکی ڈالر سالانہ کردی ہے۔ مزید یہ کہ، ان کمپنیوں سے جو اس فہرست میں شامل نہیں ہیں ، ڈجیٹل خدمات حاصل کرنے کے لیے ، ترسیلات کی سالانہ حد بھی 25 ہزار امریکی ڈالر سے بڑھا کر 40 ہزار امریکی ڈالر کر دی گئی ہے۔ مزید برآں، ڈجیٹل خدمات فراہم کرنے والوں کے علاوہ،بیرون ملک سے دیگر خدمات حاصل کرنے والے کاروباری اداروں کی سہولت کے لیے ، اسٹیٹ بینک نے اس حد کو 10 ہزار امریکی ڈالر سے بڑھا کر 25 ہزار امریکی ڈالر کر دیا ہے، بیرون ملک سے خدمات کے حصول کی درخواست پر بینک اس رقم کی حد تک کارروائی کر سکتے ہیں۔ اس حد سے زائد ترسیلات بھجوانے کے لیے اسٹیٹ بینکنگ سروسز کارپوریشن (بی ایس سی) کے فارن ایکسچینج آپریشنز ڈیپارٹمنٹ (ایف ای او ڈی) کے ساتھ رجسٹرڈ ہونا پڑے گا ۔

بیرونی کمپنیوں کی برانچوں کی جانب سے منافع/ ہیڈ آفس اخراجات کی ترسیل: بیرونی کمپنیوں کی برانچوں کو قانونی ادائیگیوں، جیسے منافع، ہیڈ آفس کے اخراجات اور کاروبار ختم کرنے سے ملنےوالی رقوم وصولیوں کی ترسیل آسان بنانے کے لیےاسٹیٹ بینک نے موجودہ قواعد و ضوابط میں تبدیلیاں کی ہیں اور مجاز بینکوں کو اس طرح کی ترسیلات کی اجازت دی ہےتاکہ اسٹیٹ بینک کو کم سے کم مداخلت کرنی پڑے۔ پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کی وہ برانچیں جو منافع/ ہیڈ آفس کے اخراجات/ کاروبار ختم کرنے پر رقوم کی ترسیل کا ارادہ رکھتی ہیں ، اپنے بینک کو شعبۂ زرِ مبادلہ پالیسی ، اسٹیٹ بینک سے نامزد کروائیں گی ، جس کے بعد نامزد بینک ان مدّات کے تحت ترسیلات زر بھیج سکتے ہیں۔

ضمنی سرگرمیوں کے لیے کاروباری عمل کی آؤٹ سورسنگ(بی پی او) : مہارت سے فائدہ اٹھانے اور متعلقہ اخراجات کم کرنے کی غرض سے کمپنیاں اپنے معاونتی وظائف متعلقہ یا بیرون ملک تھرڈ پارٹی کو آؤٹ سورس کرکے اپنے کاروباری عمل کی ساخت تیزی سے تبدیل کرتی جا رہی ہیں۔ چنانچہ اسٹیٹ بینک نے ان کمپنیوں کی طلب پوری کرنے کے لیے کاروباری عمل کی آؤٹ سورسنگ برائے ضمنی سرگرمیوں کے عنوان سے فارن ایکس چینچ ضوابط متعارف کرا دیے ہیں۔ اب اپنے ضمنی کاروباری پراسیس کی آؤٹ سورسنگ کی خواہش مند مقامی (resident) کمپنیاں کسی بینک کے توسط سے ایس بی پی – بی ایس سی کے شعبہ ایف ای او ڈی سے رابطہ کرکے ان رہنما ہدایات پر مبنی معاہدے کی تصدیق کرا سکتی ہیں۔ تصدیق کے حصول کے بعد متعلقہ بینک قابلِ اطلاق ضوابط کے تحت ترسیلات بھیج سکتا ہے۔

نقل و حمل (لاجسٹک) سے متعلق ترسیلات: اسٹیٹ بینک نے نقل و حمل سے متعلق بیرونِ ملک ادائیگیوں جیسے کنٹینر رکھنے کے چارجز، پورٹ ڈیموریج چارجز وغیرہ کے لیے مخصوص ہدایات جاری کردی ہیں جس کا مقصد زرمبادلہ کے ضوابط کو موجودہ کاروباری ماحول سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ نئی متعارف پالیسی کے تحت ایک مخصوص حد تک ادائیگیاں کرنے کی بینکوں کو اجازت دیدی گئی ہے۔

بحری جہاز/ طیارہ چارٹر کرنے کے اخراجات کی براہ راست مالک کو ادائیگی: اسٹیٹ بینک نے پاکستان میں کاروباری طبقے کو سہولت دینے کی غرض سے بحری جہاز/ طیارہ چارٹر کرنے کی لاگت براہ راست مالک کو ادا کرنے کے لیے اپنے ضوابط پر نظر ثانی کی ہے، اور بینک اب اسٹیٹ بینک سے پیشگی اجازت کے بغیر اس ضمن میں ادائیگیاں کر سکیں گے۔

امید ہے کہ سہولتیں دینے والے محولہ بالا اقدامات سے پاکستانی کاروباری طبقے کو اپنے کاروبار کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔

ان پالیسی اقدامات کا حامل ، بینکوں کو جاری کردہ سرکلر اس لنک پر دستیاب ہے:

https://www.sbp.org.pk/epd/2021/FEC7.htm

اپنا تبصرہ بھیجیں