اردو ادب کے معروف شاعر اکبر الہ آبادی کا صد سالہ یوم وفات

اردو میں طنز و مزاح کے سب سے بڑے شاعر اور لسانُ العصر” اکبرؔ الٰہ آبادی “ کا آج (9 ستمبر 2021کو) کو صد سالہ یومِ وفات ہے۔

اکبر الٰہ آبادی 16 نومبر 1846ء الہٰ آباد کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام سید اکبر حسین رضوی اور تخلص ‘اکبر’ تھا۔ 1866ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا اس کے بعد نائب تحصیلدار ہوئے۔ 1881ء میں منصف، 1888ء میں سب جج اور 1894ء میں سیشن جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔

شعر گوئی شوق بچپن سے تھا۔ وہ اردو شاعری میں ایک نئی طرز کے موجب بھی تھے اور اس کے خاتم بھی۔ انہوں نے ہندوستان میں مغربی تہذیب کے اولین اثرات کی تنقید میں اپنی طنزیہ شاعری سے خوب کام لیا۔ ان کے متعدد اشعار اردو شاعری میں ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں


فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں

اکبر الہ آبادی مشرقیت کے دلدادہ اور مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید کے سخت خلاف تھے۔ مغرب زدہ طبقے کو طنز و مزاح کی چٹکیاں لے کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔ کلام میں مس، سید، اونٹ، کالج، گانے، کلیسا، برہمن، جمن، بدھو میاں مخصوص اصطلاحیں اور علامتیں ہیں۔

مخزن لاہور نے انھیں لسان العصر خطاب دیا۔ مبطوعہ کلام تین کلیات پر مشتمل ہے۔ دو ان کی زندگی میں شائع ہو گئے تھے۔ تیسرا انتقال کے بعد شائع ہوا۔ اکبر الٰہ آبادی کی تصانیف میں چار جلدوں پر مشتمل کلیاتِ اکبر ، گاندھی نامہ، بزمِ اکبر اور گنج پنہاں کے نام سرفہرست ہیں۔

وہ 9 ستمبر 1921 کو الہ آباد میں وفات پاگئے ۔

لسانُ العصر اکبرؔ الٰہ آبادی کے یومِ وفات پر ان کے چند منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔

آہ جو دل سے نکالی جائے گی 
کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی 

اس نزاکت پر یہ شمشیر جفا 
آپ سے کیوں کر سنبھالی جائے گی 

کیا غمِ دنیا کا ڈر مجھ رند کو 
اور اک بوتل چڑھا لی جائے گی 

شیخ کی دعوت میں مے کا کام کیا 
احتیاطاً کچھ منگا لی جائے گی 

یادِ ابرو میں ہے اکبرؔ محو یوں 
کب تری یہ کج خیالی جائے گی 

اکبر الہ آبادی پر کئی تحقیقی مقالات لکھنے والے مشہور نقاد پروفیسر علی احمد فاطمی کا کہنا ہے کہ اکبر کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی سماجی اور سیاسی افکار کو سمجھنے کی بھی بہت ضرورت ہے۔

اکبرؔ دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے

لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے

پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا

لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہو گئے

بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے

تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا

رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا

ہم یاد خدا کرتے ہیں کر لے نہ خدا یاد

نکالا کرتی ہیں گھر سے یہ کہہ کر تو تو مجنوں ہے

ستا رکھا ہے مجھ کو ساس نے لیلیٰ کی ماں ہو کر

نہ تو کچھ فکر میں حاصل ہے نہ تدبیر میں ہے

وہی ہوتا ہے جو انسان کی تقدیر میں ہے

تعلق عاشق و معشوق کا تو لطف رکھتا تھا

مزے اب وہ کہاں باقی رہے بیوی میاں ہو کر

خُدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ھے ، اے اکبرؔ

یہی وہ دَر ھے ، کہ ذلت نہیں سوال کے بعد

بولے کہ تجھ کو دین کی اصلاح فرض ہے
میں چل دیا یہ کہہ کے کہ آداب عرض ہے

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے

ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے

سو جان سے ہو جاؤں گا راضی میں سزا پر

پہلے وہ مجھے اپنا گناہ گار تو کر لے

تحسین کے لائق ترا ہر شعر ہے اکبرؔ
احباب کریں بزم میں اب واہ کہاں تک

اپنا تبصرہ بھیجیں